چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے ایڈوکیٹ یوگ مایا ایم جی کی اس درخواست پر غور کرنے سے انکار کردیا۔بنچ نے درخواست گزار سے کہا کہ عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے عرضی گزار کی جانب سے پیش ہونے والی سینئر ایڈوکیٹ شوبھا گپتا کو مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ خواتین اراکین پارلیمنٹ کو شامل کرکے ایک پرائیویٹ بل پاس کرنے کی کوشش کریں۔
اس پر ایڈوکیٹ گپتا نے دلیل دی کہ عرضی گزار کوئی ایکٹ نہیں چاہتا بلکہ سیاسی جماعتوں کو پی او ایس ایچ ایکٹ کے دائرے میں لانے کے لیے عدالت کی وضاحت چاہتا ہے۔ وکیل نے دلیل دی کہ سیاسی جماعتوں کو پی او ایس ایچ ایکٹ کے مفہوم میں ’کام کرنے کی جگہیں‘ اور ’ملازم‘ سمجھا جائے گا اور اس لیے انہیں خواتین سیاسی کارکنوں کی جنسی ہراسانی سے متعلق دفعات کی تعمیل کرنی چاہیے۔
انہوں نے کیرالہ ہائی کورٹ کے 2021 کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو پی او ایس ایچ ایکٹ کے تحت داخلی شکایات کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ۔
درخواست گزار نے اب مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔