خیال کیا جاتا ہے کہ گجر روس سے ہندوستان ائے ہیں اور اس وقت دنیا کے تقریبا ادھے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں یہودی اور پارسی مذہب کو چھوڑ کر گجر تقریبا ہر مذہب کو ماننے والا ہے. گجر جس طرح دنیا کے مختلف ممالک، مذاہب علاقوں، اور خطوں میں بکھرا ہوا ہے اسی طرح اس کا کلچر زبان رسم و رواج اور کاروبار بھی الگ الگ ہیں لیکن گجر جہاں بھی ہیں اپنے اپ کو گجر ہی کہلواتے ہیں جنوبی ایشیا میں گجر ہندو سکھ اور اسلام مذہب کو ماننے والے ہیں اسلام کو ماننے والے گجر ہندوستان کے علاوہ پاکستان افغانستان اور ایران میں ہیں' بر صغیر میں گجر اپنے الگ الگ پیشوں کی وجہ سے تین قبیلوں میں بٹا ہوا ہے جو لوگ زمین داری یا کسی اور کاروبار سے منسلک ہیں ان کو گجر ہی کہا جاتا ہے دوسرا طبقہ جو بھینس پلتے ہیں اور دودھ کا کاروبار کرتے ہیں وہ "بنہارہ" کہلائے اور گجروں کا تیسرا طبقہ جو بھیڑ بکریاں پالتا ہے جو خانہ بدوش طبقہ ہے انہیں بکروال کہا جاتا ہے۔بکروال جموں کشمیر کے جنگلاتی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے خانہ بدو ش لوگوں کا ایک قبیلہ ہے جن لوگوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے ہیں اگر بکروالوں کی تاریخ کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ تقریبا 200 سال پہلے کاگان کھنگری وغیرہ علاقے جو موجودہ ضلع منسیرہ خیبر پختون خواہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں آباد تھے یہ لوگ بیڑھ بکریاں گائے بیس گھوڑے کتے وغیرہ پالتے تھے اور زمین دار بھی تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ کئی سال تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں خشکی اور قحط سالی پڑھ گئ اناچ اور گھاس چارہ ختم ہو گیا اور مجبور ہو کر ان لوگوں کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی۔ کچھ لوگ افغانستان چلے گئے کچھ ایران میں داخل ہو گئے اور کچھ لوگ قحط سالی کی مار سے بچا کھچا مال مویشی لے کر جموں کشمیر میں داخل ہوگئے جموں کشمیر میں اس وقت مہاراجہ رنبیر سنگھ کا راج تھا جب یہ لوگ جموں کشمیر میں داخل ہوئے تو راجہ کو خبر ملی کہ اس کے علاقے میں کچھ انجان لوگ داخل ہو گئے ہیں تو راجہ نے فورن حکم جاری کیا کہ ایسے لوگوں کو پکڑ کر دربار میں حاضر کیا جائے حکم کی تعمیل ہوئی اور کچھ لوگوں کو پکڑ کر راجہ کے سامنے پیش کیا گیا ان لوگوں نے اپنی کہانی راجہ کو بتائی اور راجہ سے گزارش کی کہ ان کو یہاں رہنے کی اجازت دی جائے راجہ کو ان لوگوں کی حالت زار پر رحم ایا اور انہیں ان دو شرطوں پر رہنے کی اجازت دی ایک تو یہ لوگ کبھی واپس نہیں جائیں گے اور دوسرے جنگلات کا ٹیکس ادا کریں گے تو ان لوگوں کے پاس راجہ کی بات ماننے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا لہذا محکمہ جنگلات کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں کا محکمہ جنگلات میں اندراج کیا جائے اور ان سے ٹیکس وصول کیا جائے تو محکمہ جنگلات نے ان لوگوں کو اپنے ریکارڈ میں "بکری والا "کر کے اندراج کیا جو اگے چل کر بکروال ہو گیا بکر وال قبیلے کے لوگوں کی ابادی 10 لاکھ کے اس پاس ہے اور یہ سب لوگ مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں ان لوگوں کا پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا ہے اپنے سامان کو ڈھونے اور سواری وغیرہ کے لیے گھوڑے بھی پالتے ہیں ان کے پاس بہت ہی خطرناک قسم کے کتے ہوتے ہیں جنہیں "بکر والی کتا "کہا جاتا ہے جو کے جنگلی جانوروں سے ان کے مال مویشی کی حفاظت کرتے ہیں چونکہ یہ خانہ بدوش لوگ ہیں ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا پورا سال ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے ہیں موسم گرما اتے ہی یہ لوگ اپنے مال مویشی کو لے کر وادی کشمیر کے بالائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں جس جگہ کو ڈھوک کہا جاتا ہے یہ ڈھوک پہاڑوں کے درمیان ہرے بھرے میدان والے مقام ہوتے ہیں ان ڈھوکوں کا موسم ہوا پانی اور ہری بھری گھاس بھیڑ بکریوں کے لیے بڑی مفید ہوتی ہے ایک تو اس سے مال صحت مند رہتا ہے تگڑا ہوتا ہے دوسری ڈھوکوں میں بکریاں اچھا خاصا دودھ دیتی ہیں جس سے یہ لوگ گھی مکھن دہی لسی وغیرہ بناتے ہیں سال کی 12 مہینوں میں بکر والوں کے یہی دو سے تین مہینے ہیں جو بہت اچھے اور ارام دہ ہوتے ہیں اور اکتوبر کے مہینے میں موسم سرم کی ابتدا سے پہلے ہی بکروال اپنا مال مویشی کو لے کر دوبارہ صبح جموں کا رخ کرتے ہیں اور راستے میں کشمیر کے مختلف اضلاع میں اپنا ڈیرہ ڈالتے ہوئے کچھ دن رکتے ہیں اور اپنے مال مویشی بھیڑ بکریوں کو فروخت کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا واحد یہی ذریعہ معاش ہے( اور کبھی کبھار کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر جب ان کا بھی نقصان ہو جاتا ہے تو بکروالوں کے لیے زندگی بڑی محال اور تنگ ہو جاتی ہے) اور پھر اپنے اپنے ریورڑ اور گھوڑوں پہ سامان لادنے ہوے چھوٹے چھوٹے پڑاؤ کرتے ہوئے جہاں رات ہوجائے وہیں ٹینٹ لگا کر رات گزرتے ہیں اور صبح ہوتے ہی اگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑتے ہیں اسی طرح یہ لوگ پولیس فوج سے مار کھاتے لوگوں سے گالیاں سنتے گاڑی والوں کو ظلم سہتے پیر پجال اور بنال پاس سے ہوتے ہوئے خطہ جموں کے مختلف اضلاح جیسے راجوری پونچھ ریاسی کٹھوا سامبہ جموں وغیرہ کے مختلف علاقوں میں یہ اپنے چھ مہینے گزرتے ہیں اور پھر موسم گرما کی آمد پہ یہ لوگ دوبارہ وادی کشمیر کا رخ کر لیتے ہیں بس ایسے ہی چلتے چلتے ان لوگوں کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں بکروال کا بچہ جو راستے چلتے چلتے کبھی کسی ٹینٹ میں پیدا ہوتا ہے اور کبھی کسی پیڑ کے نیچے اور کبھی کھلے اسمان تلے اور اس بد نصیب بچے کو پہلے ماں گود میں اٹھا کر چلتی ہے جب دو تین سال کا ہوتا ہے تو گھوڑے پہ بند کر بٹھا کے چلایا جاتا ہے اور جب چلنے کی قابل ہوتا ہے تو بکریوں کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے ماں کی گود سے قبرستان تک ہر بکروال کے بس یہی کہانی ہے ایک جگہ سے دوسری اور دوسری سے تیسری ہجرت کرتے کرتے لاکھوں زندگیاں اسی طرح ختم ہو گئی ہیں اور نہ جانے کب تک اور کتنی نسلوں کو زندگیاں گزارنی پڑے گی واضح رہے کہ بکروال یہ ہجرت کسی عادت یا شوق کی وجہ سے نہیں کر رہے بلکہ یہ لوگوں کی مجبوری ہے رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں زمین نہیں ہے کوئی گھر نہیں ہے اور اتنا پیسہ یا دولت نہیں ہے کہ ایک جگہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ بنا سکیں اج 21کیسویں صدی میں جہاں لوگ چاند پہ پلاٹ خرید رہے ہیں وہیں بکروال کے پاس زمین پہ رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے جہاں دنیا اج ارٹیفیشل انٹیلیجنس کی بات کرتی ہے وہیں بکروال بچوں کے لیے سرکاری اسکول تک میسر نہیں ہے لوگ اج پنکھے اور کولر کی جگہ اے سی لگا رہے ہیں اور بکروال سوچتا ہے کہ ترپال کے نٹینٹ کی جگہ اگر کپڑا والا ٹینٹ بنا لوں تو بارش اور گرمی سے راحت ملے جائے گی یعنی بکر وال لوگ 21کیسویں صدی میں بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ حکومت نے بکروالوں کے لیے موبائل اسکول قائم کیے تاکہ جہاں جہاں یہ لوگ جائیں وہ سکول بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں اور ان سکولوں میں اسی قوم کے تھوڑے بہت جو لوگ پڑھے لکھے تھے ان کو ہی بطور ٹیچر لگایا گیا مگر یہ اسکول کسی بھی لحاظ سے کامیاب نہیں ہوئے ایک تو ان اسکولوں میں جو ٹیچر لگایا گیا وہ ٹیچر زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے اور دوسرے ان اسکولوں کا زمینی سطح پر کوئی وجود نہیں ہے میں نے آج تک پورے جموں کشمیر میں موبائل اسکول کی ایک بھی عمارت نہیں دیکھی جو سکول صرف کاغذوں میں ہوں بچوں کے نام صرف رجسٹروں میں ہوں رجسٹر استاذہ صاحبان کے گھروں میں ہوں ایسے برائے نام اسکولوں کے برائے نام طالب علم بیچارے بکری ہی چرائیں گے ہجرت ہی کریں گیے NASA میں سائنٹسٹ تو ہو نہیں سکتے لہذا حکومت اگر بکر والوں کی طرف توجہ دے بکروالوں کی بازآبادکاری کا کوئی معقول اور مستقل انتظام کرے ان لوگوں کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے ان کے بچوں کے لیے ریزیڈنٹل سکول بنائے جائیں تاکہ اگر بکروال خود ایک جگہ پہ نہیں رہ سکتے کم سے کم ان کے بچے ان ریزیڈنٹل سکولوں میں اچھی تعلیم حاصل کر سکیں ان کا مال مویشی جو کہ ان کا واحد ذریعہ معاش ہے راستے میں کبھی گرمی کی وجہ سے آندھی طوفان کی وجہ سے اور سڑکوں پہ گاڑیاں کچل دیتی ہیں سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے اس کے لیے کوئی اسکیم بنائیں جس کے تحت ان کا جو بھی نقصان ہوتا ہے اس کا معاوضہ مل سکے۔ کیونکہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ سرکار ان کی طرف توجہ دے تاکہ یہ لوگ بھی ایک عزت دار شہری والی زندگی گزار سکیں
کالا کوٹ رجوری جمو و کشمیر
9797433971