Masarrat
Masarrat Urdu

فلم پدماوت تاریخ اور حالات کے تناظرمیں ایک سال مکمل

Thumb

 

گزشتہ سال (25جنوری(ملک میں راجپوت رانی پر بننے والی سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پدماوت زبردست ہنگامے کا شکار ہی۔ اس فلم میں رانی پدماوتی کاکرداردپیکا پادوکن اور رجارتن سین کا کردارشاہد کپور نے پیش کیا ۔واضح رہے کہ کسی بھی فلم میں تین اداکاروں کے اہم رول ہوتے ہیں ۔ ہیرو، ہیروئن اور ولن کا کردار۔ اس فلم میں ولن کا کرداراداکرتے ہوئے رنویرسنگھ نے علاء الدین خلجی کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ جس راجا نے ہندوستان کو شاندار ماضی عطا کیا، اس کو فلمی دنیا نے ایک ولن کے طور پر پیش کردیا۔ ہندوستان میں جو ذہنیت بڑی سطح پر فروغ پارہی ہے، وہ ہندوستان میں گزرے ہوئے مسلمان راجائوں کی تاریخ کو نئی نسل کے سامنے ایک بھونڈے طریقے سے پیش کرناہے، تاکہ ان سے موجودہ نسل نفرت کرنے لگے۔ شایداسی ذہنیت کی پیروی کرتے ہوئے علاء الدین خلجی کو ایک ولن کے طور پرفلم میں بھنسالی نے پیش کردیا۔ ایسے ماحول میں Film Industriesپر کچھ سوالیہ نشان لگے ہیں :
(1)کیا اب Film Industriesماضی کے راستے سے بھٹک چکی ہے۔
(2)کیا فلمی دنیا اب ہندوتوا ذہنیت کی غلامی کے طوق اپنی گردن پر ڈال چکی ہے۔
(3) کیا فلم اب مذہبی جذبات کو ابھارنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔
(4) کیا فلم امن و امان ،مذہبی رواداری کے پیغام کو معاشرے تک پہنچانے کے بجائے اب آپس میں نفرت اور ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے کا آلہ بن چکی ہے۔
اگر یہ باتیں سچ ہیں تو کافی سنجیدگی کے ساتھ ہمیں اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ،جس سے ملک کے ماحول کو مکدر ہونے سے بچایا جاسکے ۔
علاء الدین خلجی کون:
ترکی نسل سلطان علاء الدین خلجی دہلی میں 1296کوجلوہ فگن ہوئے اور الماس بیگ کی تائید و اتفاق سے تخت نشیں ہوئے۔ خلجی نے الماس کو الغ خان، سنجر ؔ جو رشتے میں ان کا سالا لگتا تھا اور میر مجلس تھا ان کو الپ خان، اسی طرح ملک نصرت جلیسری کو نصرت خان اور ملک بدرالدین کو طغر خان کا خطاب عطا کیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب سلطان تخت نشینی پر فائز ہواتو اس نے ایک میدان میں لشکر کا خیمہ لگوا کروہاں دربار عام منعقد کیا ، جس میں خاص وعام کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی بادشاہ اس طرح خاص و عام کو نوازے گا تو ضرور لوگ ان کے گرویدہ ہوں گے اور ایک حاکم وقت کے لیے یہ سب سے بڑی بات ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی ان کی تائید میں رہیں۔ اس دربارِ عام میں انعام کے ساتھ ایک اور کام کیاگیا۔ جس میں امیر وں اور سرداروں کو مناسب جاگیریں عطا کی گئیں، پھر اس کے بعد سلطان کے نام کا خطبہ خانی ہوا۔
جب سلطان کو اس بات پر یقین کامل ہوگیا کہ ہم نے پایۂ تخت کے بندوبست کو بحسن وخوبی انجام دے دیا ہے تو اس نے الغ خان (1297)اور الپ خان کو بڑے لشکر کے ساتھ مہم ملتان کے لیے روانہ کیا، جس میں ان کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ سلطان نے مغلوں کے حملوں کو جس طرح ناکام کیا اس سے ایک ہندوستانی بادشاہ کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مغلوں نے پہلاحملہ 1299میں چتلاؔ ، دوسراحملہ خواجہ ولد سلطان دائود ، تیسرا ترغی (یہ تیراندازی میں بہت ماہر تھا) چوتھا حملہ خراسان کے شہزادوں محمد تریاق اور علی بیگ اور پانچواں بار وکیک کی قیادت میں کیا۔ مگر سلطان نے بڑی حکمتِ عملی سے مغلوں کے سپاہیوں کو میدان جنگ میں دھول چٹاکر کے انھیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ 1298میںالغ خان ہی کی قیادت میں ایک بڑے لشکر کے ساتھ راجہ کرن پر فوج کشی کے لیے روانہ کیا۔ اس مقابلہ میں گجرات راجہ کو شکست ہوئی اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ 1299میں الغ کی ہی قیادت میں خلجی فوجوں نے رنتھنبور اور جھابن پر حملہ کیا۔ یہاں پر اس وقت ہمیر دیو کی حکومت تھی، اس نے مقابلہ کے لیے دس ہزار سوار، کثیر پیادہ فوج اور بے شمار ہاتھیوں کے ساتھ میدان جنگ میں آیا مگر مقابلہ کا تاب نہ لاسکا جس کی وجہ سے اسے بہت بڑی شکست ہوئی ۔ 1303میں الغ خان کے مشورے سے چتور پر حملہ کیا، اسی طرح مالوہ، سورت کے قلعے ، وارنگل اور پورے دکن کو سلطان نے فتح کرلیا۔ سلطان کی فتحیابی کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس جادوئی ہنر ہے۔ ان کامیابیوں سے سلطان نے پوری دنیا پر حکومت کرنے کی خواب دیکھنے لگا تھا۔ کہتے ہیں نا! انسان کی ذات فانی ہے ۔ سلطان بھی ایک روز اس دنیا سے سفر کوچ باندھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطان تب دق کے عارضہ کا شکار ہوگیا۔ پھر اس پر قیامت یہ کہ آخری زمانہ میں اس کے حواس جاتے رہے ،مزاج میں چڑچڑا پن اور بدگمانی غالب آگئی ۔ خلجی نے کل 20سال حکومت کی ، 1316میں وہ اس دنیا سے دار فانی کو کوچ کرگئے۔
ہندوستان کی سرزمین پر گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد خلجی حکومت نے ہی رکھی تھی، جس کو علاء الدین خلجی نے آگے بڑھایا۔ اس حکومت سے پہلے دہلی پر راج کرنے والی سلطنتیں چاہے التمش، غیاث الدین بلبن ہو کہ رضیہ سلطانہ کسی نے بھی حکومت میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا۔ جب خلجی حکومت قائم ہوئی تب جاکرمقامی لوگوں کو حکومت میں حصہ داری کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے نقشۂ قدم پر بعد میں مغل حکومتیں چلیں۔
خلجی نے اپنے دور حکومت میں شراب پر پابندی عائد کردی تھی ،اگر کوئی شخص نشے کی حالت میں پالیا جاتا تو اسے سزادی جاتی تھی۔ خلجی نے جو بڑا کارنامہ انجام دیا، وہ یہ ہے کہ قیمت پر کنٹرول اور ہر چیز کی ایک سرکاری قیمت کا مقرر کرنا۔اس سچ کاا ندازہ ’’بین الاقوامی جرنل آف اپلائیڈ سائنسز‘‘ میںشائع تاریخ داں روچی سولنکی اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے لیکچرر ڈاکٹر منوج کمار شرما کے اس نظریے سے کیا جاسکتا ہے:
علاء الدین نے اپنے دور حکومت میں ہرچیز کے دام طے کردیئے تھے۔ ایک اعلیٰ نسل کے گھوڑے کی قیمت 120ٹکا تھی، جب کہ دودھ دینے والی بھیس کی قیمت چھ ٹکے اور دودھ دینے والی گائے کی قیمت چار ٹکے طے تھے۔ اس کے علاوے بھی سارے سامان کی قیمت مقرر تھے۔ پروفیسر ندیم رضوی نے زرعی اصلاحات کے بارے میں کہا ہے :
خلجی کے سب سے بڑے کاموں میں سے ایک زرعی اصلاحات بھی تھیں۔ ان کے مطابق یہ گورننس میں مقامی لوگوں کو جگہ دینے کا نتیجہ تھا اور مقامی لوگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی کئی فیصلے لیے گئے۔ خلجی نے دہلی سلطنت کے علاقے میں زمین کا سروے کروایا اور زمین کی اقسام طے کی گئی ۔ خالصہ میں پیدا وار کا 50فی صد ٹیکس میں لیا جاتا تھا۔ علاء الدین خلجی نے شاہی گودام تعمیر کروائے تھے تاکہ ذخیرہ اندوزی کو روکا جاسکے۔ خلجی نے کسانوں اور حکومت کے درمیان سے ثالث کو ہٹا دیا تھا۔ زرعی نظام میں بہتری کے ساتھ، خلجی نے ایماندار انتظامیہ کو یقینی بنایا، جس کو رہتی دنیا یاد رکھے گی۔
رانی پدماوتی کون:
کہا جاتا ہے کہ رانی پدماوتی کے والدکا نام راجہ گندوسین تھا(اس کی حکومت سہل دیب لنکا پر تھی) اور ماں کا نام چمپاوتی ، پدماوتی جب جوان ہوئی تو اس کے والد نے مختلف جگہوں کے بادشاہوں کو مدعو کیا جن میں ایک بادشاہ ملخان نام کابھی تھا جس کو راجا رتن سین نے ہراکر رانی پدماوتی سے شادی کرلیا ۔ جب کہ راجا رتن سنگھ کی شادی ہوچکی تھی ۔ راجا پدماوتی کو لے کر چتور واپس آگیااور زندگی خوبصورت حسین وجمیل پدماوتی کے ساتھ گزار نے لگا۔ رتن سنگھ کے دربار میں راگھب چتن نام کا ایک شخص رہتا تھا ، جو جادوگری میں مہارت رکھتا تھا اور اس کا غلط استعمال کرتا۔ یہ بات کسی پر عیاں نہ تھی ، اتفاق سے ایک روزیہ راز کھل کر سب کے سامنے آگیا ، جس پر راجا رتن نے اس کے منھ کو کالا کرواکر اور گدھے میں بیٹھا کر اسے اپنے دربار سے نکال دیا ، جس پر اسے بڑا غصہ آیا اور دل ہی دل میں اس کا بدلہ لینے کو ٹھان لیا ، مگر کوئی راستہ نظرنہیں آیاجس سے وہ بدلہ لے سکے ۔ اس نے سوچا کہ بس اس وقت دہلی پر علاء الدین خلجی کی حکومت ہے، ہم کسی طرح اس کے دربار تک رسائی حاصل کرلیں پھر تو کوئی راستہ نکل ہی جائے گا۔ ایسا ہی ہواکہ کسی طرح وہ دربار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نکلا ۔ ایک دن اتفاق سے خلجی کورانی پدماوتی کی خوبصورتی کی کہانی سنایااور خلجی کو پدماوتی کو حاصل کرنے پر ورغلایا جس پر خلجی نے پدماوتی کو پانے کے لیے چتوڑ پر حملہ کردیا ۔ ایک طویل جنگ کے بعد چتور کے قلعہ پر خلجی کی فوج قضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ادھر اس بات کی خبر رانی پدماوتی کو ہوئی تو اس نے اپنی عزت کو بچانے کے لیے اپنی تمام کنیزوں کے ساتھ ایک آگ کے حوالے ہوگئیں۔ اب یہ باتیں کس حدتک صحیح ہیں؛ ان کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے، کیوں کہ اس دور کے کسی مؤرخ نے اس بات کو اپنی کتاب میں بیان نہیں کیا ہے ۔مثلاً عصامی ،ؔ تاریخ محمدی، تاریخ مبارک شاہی، برنیؔ اور ابن بطوطہ وغیرہ کسی نے بھی اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔یہاں تک کہ امیر خسروجو اس جنگ کے عینی شاہد تھے انھوں نے جب ’’خزائن الفتوح‘‘ میں اس جنگ (چتوڑ )پر تفصیلی گفتگو کیا،تو کہیں پروہ وجہ جو عوام میں مشہور(رانی پد ماتی اور علاء الدین کی کہانی) ہے بیان نہیں کیا۔ ہاں!ایک صوفی شاعر ملک محمدجائسی نے اپنی ایک طویل نظم ’’پدماوت‘‘ میں پہلی بار ذکر کیا جو خوب مقبول ہوئی مگر یہ کہانی خلجی کے انتقال کے سوا دوسوسال بعد لکھی گئی۔ اب خداہی جانے کہ ملک محمد کو یہ کہانی کہاں سے ہاتھ آئی ،پھر فرشتہ ،حاجی الدبیر،ابوفضل اورکرنل ٹاڈ کی تصانیف میں اختلافات کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ کی شکل میں مذکور ہوا۔اس کے بعد بہت سے ہندی شاعروں نے بھی اس کہانی کو اپنے کویتوں میں بیان کیا جن میں ایک بڑا نام پنڈت ندیند مسر کا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تاریخ دانوں نے بھی پدماوتی کے بارے میں لکھا ہے ان میں ایک مؤرخ ملا عبد القادر بدایونی بھی ہیں جو عہد اکبری سے تعلق رکھتے ہیں ان کی کتاب منتخب التواریخ کے حاشیے میں پدماوتی کے بارے میں کچھ اس طرح کی باتیں ملتی ہیں :
چتوڑ ریاست اودے پور کا صدر مقام تھا ۔ یہاں پہاڑی کے دامن میں ایک تاریخی قلعہ ہے، قلعے کی عمارت پانچ فٹ سطح ارض سے بلند پہاڑی پر ہے، اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی نصف میل ہے یہاں تک پہنچنے کا راستہ چکر دار ہے اور اوپر کی جانب ہے۔ سٹرک کے ارد گرد مستحکم فصیل ہے جس میں سات دروازے ہیں ، بلندی پر چشمے ، تالاب اور بائولیاں بنی ہوئی ہیں۔ کہاجاتاہے کہ اس قلعے کو ساتویں صدی عیسوی میں چترانگ نامی ایک راجا نے بنوایا تھا۔ اس کے نام پر یہ چتراکوٹ پھر بگڑکر چتوڑ ہوگیا۔ سولہویں صدی عیسوی تک چتوڑ اودے پور کے راجائوں کا پایۂ تخت رہا۔ تاریخ یہاں کے راجپوتوں کی بہادری اور حریت پسندی کے قصوں سے پُر ہے۔ علاء الدین نے سب سے پہلے 1303میں اس کو فتح کیا۔ علاء الدین کے دوسرے حملے میں ہی پدمنی کا وہ مشہور سانحہ ہوا جو لوگوں میں کافی مشہور ہوا تھا۔ پدمنی نے پاک دامنی کی خاطر چتا میں جل کر جان دے دی تھی۔
یہاں پر ’’تاریخ فرشتہ ‘‘ اور حاجی الدبیر کی کتاب’’ظفرالوالہ‘‘ سے ایک خلاصہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ کہانی کو سچائی سے کہاں تک لگائو ہے اجاگر ہوجائے۔
راجہ رتن سین جو چتوڑ کے حملے کے وقت مقید تھا بڑے عجیب و غریب طریقے سے اس نے رہائی حاصل کی۔ رتن کی عورتوں میں ایک پدمنیؔ تھی جس کے جمال اور ہنر مندی نے سلطان کو اسے حاصل کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اس نے راجا سے کہا کہ اگروہ آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ پدمنی کو کو سلطان کے حوالے کردے رتن سین نے یہ تجویز قبول کرلی اور پدمنی کو بلا بھیجا لیکن اس کے اعزہ و اقربا نے اس تو ہین آمیز تجویز کو مسترد کردیا، اور پدمنی کو اس بے عزتی سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے زہر دینے کا خیال کیا ، لیکن رتن سین کی ایک بیٹی نے جو اپنی ذہانت اور ہوشیاری کے لیے مشہور تھی ایک ایسا منصوبہ بنایا جس سے اس نے اپنے باپ کو کسی بے غیرتی اوربے عزتی کا ارتکاب کیے بغیر سلطان کی قید سے چھڑا لیا ۔تاریخ فرشتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا رتن سین عز ت وآبرو کے ساتھ چتوڑ پہنچ گیااور پھر وہاں ان بستیوں کو جو مسلمانوں نے قبضہ کرلیا تھا اسے آزاد کرایا۔ آخر کار سلطان اس مہم کو ختم کرکے دہلی واپس آگیا۔فرشتہ)
علاء الدین نے چتوڑ جانے سے قبل پدمنی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے بدلے میں رانا کی رہائی کا وعدہ کیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ جب سلطان دہلی لوٹ رہا تھا تو کیا عجیب ہے کہ راجا اس کے ہم رکاب رہا ہو، ممکن ہے اس نے سلطان سے درخواست کی ہو کہ اسے میواڑ ہی میں رہنے دیا جائے تاکہ وہ اپنی بیوی کو اس کے حرم میں جانے کے لیے آمادہ کرسکے اور اس کو سلطان کے مقرر کیے ہوئے شخص کے سپرد کردے اور پھر سلطانی محافظوں کی حفاظت میں خود بھی دہلی پہنچ جائے۔ علاء الدین نے عورت کی چاہ میں اسے وہیں چھوڑ دیا اور خود دہلی چلا گیا۔ راجہ نے اپنے قابلِ اعتماد امرا اور خدام کو خفیہ ہدایات بھیجیں اور وہ ڈھائی ہزار کی تعداد میں پالکیوں میں آئے، لڑے اور اس کو نکال لے گئے ۔ علاء الدین نے یہ سن کر چتوڑ کو راجہ کی ایک بھانجی کے سپرد کردیا جو سلطان کے عقد میں تھی ، لیکن راجہ کے وزیر نے اس کو جلد ہی مار ڈالا ۔ جس کے بعد ہندو راجہ اپنے علاقے میں پھر واپس آگیا اور وہاں اس نے اپنا اقتدار پھر سے مستحکم کرلیا یہ صورت حال ۱۹۴۱ھ تک بر قرار رہی پھر گجرات کے حاکم بہادر بن مظفر نے چتوڑ فتح کرلیا۔ (ظفرالوالہ،مترجم)
مضمون کوطوالت کے خوف سے ہم ’’آئینِ اکبری‘‘اورکرنل ٹاڈ کی کتاب’’ Annland Antiguites of Rejasthan‘‘ سے کہانی کے حصے کو بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں۔بس یہاں یہ واضح کردوں کے ہر ایک کی بات کی بنیاد جائسی کی نظم ’’پدماوت‘‘ پرہے ،مگر اس کے باجود ہر ایک مصنف کے یہاں کہانی بیان کرنے میں کافی اختلاف ہے ۔ اس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ کسی مؤرخ کے یہاں روایت کی صحت کے ساتھ یہ واقعہ نہیں پہنچا۔ اور ایک بات جو اس واقعہ پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے وہ یہ کہ جائسی نے جس راجہ کا نام علاء الدین کے عہد میں بتایا ہے کھمان را ساکی لوک روایت میں وہ نام نہیں بلکہ ’’لکھم سی‘‘ اور اسے چچاکا نام ’’بھیم ‘‘سی بتایاہے۔پھر یہ کہ جائسی نے لنکا کے بادشاہ کا نام ’’گودردھن ‘‘اور کرنل نے ہمیر لکھا ہے جب کہ اس وقت کے وجود راجہ کا نام ’’پراکرما بھو چہارم‘‘ تھا۔
اکثرتاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ باتیں صحیح نہیںہیں ۔ خیر!باتیں صحیح ہوں یا غلط مگریہ ضرور ہے کہ جو کہانیاں مذہب سے جڑجائیں، ان کا خیال اورلحاظ رکھنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ آخر سنسربورڈ اس طرح کی فلموں کو جو مذہبی جذبات کو بھڑکائے، کیوں پاس کرتی ہے۔ بھنسالی نے جو خلجی کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور حقیقت کو چھپاکر ان کو صرف ایک ولن کا روپ دے کر فلم میں پیش کیاہے، وہ یقینی طورپر ایک تاریخ کو مسخ کرنے کے والے مجرم کے صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس پر انھیں ضرور سزا ملنی چاہیے ۔ آج ملک میں جو بربادی ہوئی ، بچے تشددکا نشانہ بنے، راستے جام کیے گئے اورنہ جانے کیا کیاتباہیاںاور بربادیاں ہوئیں۔راجپوتوں اور عقیدت مندوں نے نہ جانے کیا کیا کہا۔ اس لیے اس بات پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسے راستے کھولے ہی کیوں جاتے ہیںجن کی وجہ سے ملک اور سماج کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس فلم کو لے کر جو ملک میں ماحول پیدا کیا گیا ،وہ قابل افسوس ہے اورلائق مذمت بھی ۔ ملک میں کھلے عام مذہبی جذبات کو آڑے میں لاکر آتنکی کی باتیں کی گئیں اورسرکار اس کا جواب دینے سے بالکل خاموش رہی۔ کوئی ناک کاٹنے کی باتیں کی تو کوئی سرکاٹنے پر انعام دینے کی باتیں اور کوئی چینلوں پر جاکر ہنگامہ مچایا، ان سب میں جو سب سے مزے کی بات ہے، وہ یہ کہ ایسے موقعوں پر سیاسی جماعتیں بھی خوب فائدہ اٹھاتیں ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں سپریم کورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟اگرہے تو ہم اس کے حکم کی کیوں نہیں پاسداری کرتے ہیں یا کو رٹ صحیح فیصلہ لینے میں خود ناکام ہے۔پھر جو بڑی بیماری ہمارے سماج میں ہے، وہ یہ کہ ہم کسی چیز کو جانے یا دیکھے بغیر صرف افواہوں کے سبب پر واویلا مچادیتے ہیں اور جب بات طشت ازبام ہوتی ہے تو معاملہ کچھ اور رہتا ہے ۔ یہی حال فلم’’ پدماوت‘‘کے ساتھ ہوا ۔ فلم آنے سے پہلے کیا کیا نہیں ہوا،مگر جب حقیقت لوگوں کے سامنے آئی تو ہنگامہ مچانے والے ساکت ولاجواب ہوگئے۔اپنی بات اس سوال پر ختم کرتا ہوں کہ ان حالات پر قابوپانے کے لیے کیاایک سال مکمل ہونے کے باوجود کوئی قانون بنانا؟

7275989646

 

Ads