Masarrat
Masarrat Urdu

شمس الرحمن فاروقی کا انتقال: اردو دنیا کا آفتاب ومہتاب غروب ہوگیا

Thumb

 

الہ آباد 25، دسمبر (مسرت نیوز) اردودنیا کے آفتاب و مہتاب، ادیب، مشہور نقاد اور ناول نگار، کئی چاند تھے سرآسمان اور شعر شور انگیز کے مصنف شمس الرحمن فاروقی کاطویل علالت کے بعد جمعہ کی صبح یہاں انتقال ہوگیا۔ان کی عمر 85 سال تھی۔اس کے ساتھ ہی ارد و دنیا میں زبردست خلا پیدا ہوگیا۔
 ایک مہینہ قبل انہیں کورونا ہوا تھا جس سے وہ نجات پاچکے تھے لیکن بعد میں انہیں پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر انہیں آج  ہی دہلی سے یہاں لایا گیا تھا جہاں انہوں نے صبح 11.30 بجے آخری سانس لی۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں ہیں۔ان کی اہلیہ کا انتقال چند سال قبل ہوگیا تھا۔وہ ایک عرصہ سے علیل تھے اور آج ہی دہلی سے ڈاکٹروں کے مشورہ پر ایر ایمبولینس سے انہیں ان کے گھر الہ آباد لایا گیا تھا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔ان کی پیدائش  15جنوری  1934 کو پرتاب گڑھ اترپردیش میں ہوئی تھی اور الہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے 1953میں انگریزی میں ایم اے کیا تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے طویل عرصے محکمہ ڈاک میں اعلی افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔انہوں نے 1958میں سول سروس کا امتحان پہلی کوشش میں پاس کرلیا تھا اور محکمہ ڈاک کو انہوں نے جوائن کیا تھا۔ جس میں وہ اعلی عہدے تک پہنچے تھے۔ وہ موضع کوریاپار ضلع اعظم گڑھ جو اب ضلع مؤ کا حصہ ہے، کے رہنے والے تھے۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین آج شام 6 بجے ادا کی جائے گی۔
سرسوتی سمان، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز اور پدم شرییافتہ مسٹر فاروقی کا شمار اردو ادب نقد کی دنیا کی بڑی شخصیات میں ہوتا تھا۔ ان کا ناول ’کئی چاند تھے سرآسمان‘ بہت مشہور ہوا اور بہت بڑے حلقے کو متاثر کیا۔ وہ انڈین  پوسٹل سروس کے سینئر افسر تھے اور ریٹائر ہونے کے بعدپوری توجہ لکھنے  پڑھنے کے کام پر مبذول کردی تھی۔ انہیں 1986 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔  2009 میں، انہیں پدم شری سے نوازا گیا۔شعر شور انگیز چارجلدیں پر انہیں 1996میں سرسوتی سمان سے نوازا گیا تھا۔
شمس الرحمٰن فاروقی اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق تھے جنہوں نے تنقید نگاری سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ انہوں نے الہ آباد سے ’شب خون‘ کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔ مسٹر فاروقی نے شاعری کی، پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق چرایا تو“شب خون“ میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ تین سال قبل انہوں نے ایک ناول لکھا،‘سانچہ:کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ غرض یہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔


انہوں نے کوئی چالیس سال تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ“شب خون“ کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب 'شعر شور انگیز' جوچار جلدوں میں ہے، کئی بار چھپ چکی ہے اوراس کو 1996ء میں سرسوتی سمّان ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید، شاعری، فکشن، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ، یعنی ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیے ہیں۔ انہیں متعدد اعزاز و اکرام مل چکے ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری ڈی لٹ بھی شامل ہے۔
انہوں نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے یہ ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی کتابیں،اثبات و نفی،اردو غزل کے اہم موڑ،اردو کا ابتدائی زمانہ ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو،افسانے کی حمایت میں،انداز گفتگو کیاہے،تعبیر کی شرح،تفہیم غالب،شعر شور انگیز چارجلدیں،شعر غیر شعر اور نثر،خورشید کا سامان سفر،صورت و معنی سخن،غالب پر چار تحریریں،گنج سوختہ،لغات روزمرہ، ہمارے لیے منٹو صاحب، لفظ ومعنی،نئے نام، نغمات حریت، عروض آہنگ اور بیان، کئی چاند تھے سرآسماں (ناول) آسمان محراب (شاعری)، سوار اور دوسرے افسانے۔
 اردو کے مشہور نقاد، ناول نگاراور پدم شری شمس الرحمان فاروقی کے انتقال پر زبردست دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بزم صدف انٹرنیشنل کے چیرمین شہاب الدین احمد اور شاعر و ادیب انجینئر فیروز مظفر نے کہا کہ ان کے انتقال سے اردو ادب کا زبردست نقصان اور ناقابل تلافی خسارہ ہے۔


پدم شری شمس الرحمان فاروقی کے انتقال کو تنقید کی دنیا کا زبردست خسارہ، شاعری اور ناول نگار ی کے ایک عہد کا خاتمہ قرار دیتے ہوئے شہاب الدین احمد نے کہاکہ جس طرح انہوں نے اردو ادب کی آبیاری کی ہے، تنقیدی نگاری کے زلف خمیدہ کو سنوارا،اردو شاعری، افسانہ نگاری اور ناول نگاری کو ایک جہت عطا کی یہ ان کی ہی بس کی بات تھی۔ انہوں نے کہاکہ ایک اعلی سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے جس طرح انہوں نے اردو زبان اور اردو ادب کے خدمات انجام دیں وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ 
انہوں نے کہاکہ ’شعر شور انگیز‘ کی تصنیف کرکے جہاں میرتقی میر کی تفہیم کو آسان کیا وہیں ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ جیسے شاہکار ناول لکھ کر مسلم معاشرے کی عروج زول کی داستان رقم کی۔ اس لئے انہیں اردو ادب کا عظیم ستون سمجھا جاتا تھا اور وہ صرف اردو حلقوں میں ہی مقبول نہیں تھے بلکہ ہندی اور انگریزی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔1996میں سرسوتی سمان اس بات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان کے لئے بہترین خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو ہم لوگ آگے بڑھائیں اور اردو زبان و ادب کی آبیاری کے لئے اپنی زندگی کا تھوڑا حصہ اور اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس کے لئے صرف کریں۔
دریں اثناء حلقہ فکر و فن کی ہنگامی میٹینگ انجینئر و ادیب فیروز مظفر کے مکان میں جمہ کی نماز کے بعد منعقد ہوئی جس میں شمس الرحمن فاروقی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔انجینئر و ادیب فیروز مظفر نے کہا کہ 2020 انکے لیے تو بہت خراب رہا ہی ساتھ ساتھ اردو ادب کے لیے بہت نقصان دہ رہا۔انہوں نے کہاکہ دس اکتوبر کو مشہور شاعر اور میرے والد مظفر حنفی کا انتقال ہوا اس سے پہلے مشہور شاعر راحت اندوری اور کچھ روز پہلے مجتبٰی حسین تو آج فاروقی صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے۔اردو کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔راحت اندوری مجتبٰی حسین اور فاروقی صاحب صرف والد صاحب کے دوست ہی نہیں ہمارے گھریلو تعلقات بھی تھے ا ور بہت عزیز  رکھتے تھے اللہ سب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے آمین۔
انہوں نے کہا کہ فاروقی صاحب جدیدیت کے بانیوں میں سے تھے شبخون سے انھونے ایک پوری نسل کی آبیاری کی وہ بڑے ناقد تھے 2020 اردو ادب کے لیے سب سے خطرناک سال لکھا جائے گا اردو ادب میں اب پڑھے لکھے اور اچھے لوگ بچے ہی نہیں اب تو جو ہیں وہ سب اردو کی نہیں اپنی ستائش کرنے والے ہیں

 

Ads