Masarrat
Masarrat Urdu

بزمِ صدف انٹرنیشنل کویت شاخ کا آن لائن عالمی مشاعرہ

  • 19 Sep 2020
  • مسرت نیوز
  • ادب
Thumb

نئی دہلی/کویت،19ستمبر (مسرت نیوز) عالمی وبا کورونا کے دور میں آپسی تبادلہ خیال اور ایک دوسرے سے دوری کے سبب بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کئی ناخوشگوار واقعات پیش آگئے ہیں۔ بزم صدف اسی سمت میں پہل کرتے ہوئے ادیبوں، شاعروں، مصنفوں اور ادب کے بہی خواہوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔
وبائی دنوں میں علمی اور تہذیبی سرگرمیوں کے لیے بے حد مشکل دور آیا ہوا ہے۔عوامی جلسہ منعقد کرنا دائرہ ئقانون سے باہر ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر اورایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچناناممکنات میں سے ہے۔ ایسے میں جدید مواصلا تی نظام ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔بزم صدف انٹرنیشنل نے اپنی نئی شاخ کے قیام کے لیے کویت کے شعرا و ادباکو منتخب کیا اور ایک بہترین مشاعرے کا اہتمام کر ڈالا جس کی صدارت بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے معتبر شاعر جلال عظیم آبادی نے کی اوراس نشست کی نظامت کویت سے تعلق رکھنے والے معتبرشاعر جناب مسعود حساس نے کیا۔مسعود حساس بزم صد ف کی کویت شاخ کے صدر بنائے گئے ہیں۔اس مشاعرے میں دس ملکوں کے شعراے کرام شامل ہوئے اور زوم ایپ کے علاوہ فیس بک لائیوپر ہزاروں کی تعداد میں شائقین شعر سے لطف اندوز ہوئے۔ 


افتتاحی پروگرام کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا۔مسعود حساس نے اپنے مخصوص علمی جلال اورشاعرانہ مزاج و انداز کے ساتھ مشاعرے کے شعرا کو یکے بعد دیگرے بلاناشروع کیا۔ روایت کی پاسداری کرتے ہوے میزبان شعراکوپہلے زحمتِ کلام دی گئی مگر یہ تجربہ بھی دیکھنے کو ملا کہ پہلے شاعر کی حیثیت سے کویت میں رہنے والے واحد مزاحیہ شاعر جناب ایوب خاں نیزہ کو آواز دی گئی۔ایوب خاں نیزہ نے ظرافت کے اُس خاص پہلو کو پیش کیا جس میں اپنے زمانے کے واقعات و حادثات کو شعرکا قالب عطا کیا جاتا ہے۔انہوں نے کویت میں رہنے کے باوجود برِّصغیرکے حالات اور اپنے وطن ہندستان کی تر جمانی کی اور اُن کے اشعارکو خوب خوب دادملی۔ اُن کے یہ دواشعاربہت پسند کئے گے:
اس کروناوائرس سے بچنے اور بچانے میں 
ہم نے عافیت جانی تالیاں بجانے میں 
کیا کہا،کہو پھر سے بے حسوں کی بستی میں 
عزتیں بھی بکتی ہیں چار چار آنے میں 
کویت کی بزمِ صدف کے نائب صدر نسیم زاہد ماہر عروض داں ہیں انہوں نے ایک طرف روایتی مضامین کو نئے آہنگ میں پرویا تو دوسری طرف نازک موضوعات کو استادانہ انداز میں شعر کا حصّہ بنایا اُن کے جن اشعار پر دادملی، اُن میں سے کچھ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
حضورآپ کے دامن کا داغ بول پڑا
زباں خموش ہے لیکن سراغ بول پڑا 
آج میں راہِ محبّت میں وہاں پہنچاہوں
کچھ مسافت پہ جہاں تاج محل پڑتا ہے 
شاخ سے ٹوٹ کے گرا اک پھول 
شعر میں نے کہا جدائی پر
اس مشاعرے کی نظامت ایک خاص انداز سے مسعود حساس کر رہے تھے۔ مسعود حساس بہترین زبان داں شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے بہترین اشعار کے گلدستوں کے ساتھ شعرا کو کلام پڑ ھ نے کی لگاتار دعوت دی۔ مشاعرے میں شاعر کی حیثیت سے اب اُن کی باری تھی۔بزم صدف کے بین ا لاقوامی پرو گرام ڈائرکٹر احمد اشفاق نے اُن کی ادبی اور علمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے شعرپڑھنے کے لیے آواز دی۔اُ ن کے اشعا ر میں اپنے زمانے کا کرب اور اُس کی درد آمیرطنزیہ شکل نظر آئی۔ اُن کے یہ اشعاربہت پسندکیے گئے:
بارہا اس نے مرے شعر کو بونا لکھا
اس سے دیکھا نہیں جاتا مرے معیار کا قد 
مرے جوش جنوں نے رقص لہر وں پہ کیا ایسے
مرے ہاتھوں پہ بیعت ہوگیا گرداب بالآ خر
جھکایا سر جو سجدے میں مکمل انکساری میں 
بنا پھر اشک میرا گوہر نایاب بالآخر


بزمِ صدف کی کویت ٹیم کے سر پرستوں میں سے ایک جناب عامر قداوئی نے دو مرصعّ غزلیں پیش کیں۔ اُن کا وطن لکھنؤہے۔  اس وجہ سے اُ ن کے کلام میں ادبی رکھ رکھاؤاور تہذیبی شعور صاف صاف جھلک رہا تھا۔اُن کے اِن اشعار پرداد ملی:
اپنے جذبات کا اظہار قرینے سے کرو
شہر میں اڑتے ہیں کچھ لفظ شر اروں کی طرح 
کام کرتے ہیں یہ انساں کی بقاخاطر 
ذہن و دل، آنکھ،زباں،سب ہیں اداروں کی طرح 
بدن پر زخم جتنے ہوں، شمار اچھا نہیں لگتا
کہانی میں مجھے  اک لفظ ہار، اچھا نہیں لگتا
کویت کی خواتین میں بزرگ شاعرہ شاہ جہاں جعفری حجاب کی خاص اہمیت ہے۔ اُن کی تعلیم و تربیت نے اُنھیں روایت سے آشنا کرایا مگر اسی کے ساتھ اُن کے یہاں جدید دنیا کے شعور اور عالمی مسائل کے عرفان کا شعری پیکر نظر آیا۔ وہ تانیثی حسیت کے ساتھ نئے موضوعات کی پیش کش کرتی ہوئی نظر آئیں۔ اُن کے تین اشعار ملاحظہ ہوں:
زندہ رہنے کا سلیقہ آدمی گر جان لے 
زندگی کتنی حسیں ہے، ہر کوئی پہچان لے 
لڑکیوں کے عیب جو گنتا ہے وہ لڑکا مرا 
اپنے بارے میں بھی ایک دن رائے ان کی جان لے
پاؤں بادل پر رکھا جب بوند نے تو گر پڑی 
ہاتھ اس کا تھام پہلے، ظرف اس کا جان لے 
مشاعرے میں اب آواز دی گئی جناب عادل مظفر پوری کو۔عادل صاحب نے برطانیہ کواپنا وطنِ ثانی بنالیا اور فی الوقت سعودی عرب میں مقیم ہیں۔انھوں نے تحت اور ترنم دونوں میں کلام سنایا اور سامعین کی داد وصول کرنے میں کامیاب رہے۔انھوں نے روایت اور جدّت کے امتزاج سے اپنا لہجہ بنایا ہے، اس لیے جگہ جگہ عصری تصادم اور تہذیبی آمیزشوں کی جلوہ گری نظر آئی۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
خوش گوار لمحوں میں تلخیاں وہ ماضی کی 
عورتیں نہیں صاحب، مرد بھول جاتے ہیں 
زندگی کے صحرا میں دن گزارنے والے
گرم یاد رکھتے ہیں،سرد بھول جاتے ہیں 
میں زخموں کا پیکر ہوں ٹوٹا ہوا
تونہ غم سے مجھ کو ڈرا زندگی 
وہ میّت کی میری قریب آئے ہیں 
گھڑی دوگھڑی لوٹ آزندگی 
رو کے تنہائی میں آنسوکو بہا لیتے ہیں 
ہم کو خوش دیکھ کے جلتے ہیں زمانے والے
میرے گھر لوگ بہت آئیں گے،تم بھی آنا
یوں بُلاتے ہیں ہمیں آج بُلانے والے
اب ناظمِ جلسہ نے ڈاکٹر ندیم  ظفرجیلانی کو آوازدی۔ پیشے سے وہ بچوں کے ڈاکٹر ہیں۔ برطانیہ کے شہری ہونے کے ساتھ ابھی قطر میں مقیم ہیں۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران ایسا ادبی ذوق میسّر آیا جس نے اُنھیں ایک بہترین شاعر بنادیا۔ وہ نر م ونازک شعر کے ساتھ ساتھ عصری تناظر میں بڑے کاٹ دار طنزیہ اشعار بھی خلق کرتے ہیں۔اُنھوں نے دو غزلیں پیش کیں۔ اُن کے یہ اشعار خاص طور پرپسند کیے گئے:
زخموں پہ اب نمک نہیں تیزاب ڈال کر 
لے گا وہ امتحاں مراصبرو شکیب کا
بھولے نہیں وہ جامن وامرود کے درخت
پردیس میں لگا تو لیا پیڑ سیب کا 
تھی بہت سورج کوحیرانی ہمارے عزم پر 
ہم کمندیں ڈالنے نکلے جو ماہ ونجم پر 
زندگی کے باغ میں کس وقت آجائے قرار
اختیار اپنا کہاں موسم کے سردوگرم پر
کویت بزم صدف کے تاسیسی پروگرام  میں دوبئی کی نمائندگی ثروت زہرا کر رہی تھیں۔انھیں گذشتہ سال بزم صدف کا نئی نسل اوارڈ تفویض کیا گیا۔وہ پیشے سے ڈاکٹر ہیں اور اُن کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ابھی حال میں اُن کی شاعری کا انتخاب انگریزی زبان میں بھی منظرِعام پر آیا۔ وہ جدید تانیثی حسیت کی علم بردار ہیں۔ اُن کی شاعری میں نئی دنیا میں خواتین کے حقوق اور اُن کے جذبات و احساسات کی آزادی پر خاص توجہ ہے۔ اُنھوں نے  غزل کے ساتھ ساتھ اپنی نظم بھی پیش کی۔ خاص طور سے صوفی شاعر وارث شاہ کو یاد کرتے ہوئے اُنھو ں نے اپنی دل پذیر نظم سنائی جسے غور سے سنا گیا۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کیسے بجھائیں،کس کوبجھائیں، بجھے بھی کیوں 
اس آگ کو تو خون میں حل کر دیا گیا
بنتِ حّواہوں میں، یہ مراجرم ہے 
اور پھرشاعری تو کڑا جرم ہے 
احمد اشفاق مشاعرے کے اگلے شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ اُن کا شعری مجموعہ’  دسترس‘ اُنھیں مہجری جذبوں کے ترجمان کے طور پر پہچان دلاتا ہے۔اُنھوں نے تین غزلوں سے منتخب اشعار پیش کئے۔ چھوٹی بحر میں اُنکے ا شعاراپنا گہرا تاثرقائم کرنے میں کامیاب ہوئے:
خبر اُسے بھی نہیں، میں بھی بے خبرٹھہرا 
سفرتمام کیا ساتھ میں عدولے کر 
ریگ زاروں میں پل رہا ہوں میں 
چاندی سونااُگل رہا ہوں میں 
فاصلہ اب بہت ضروری ہے 
تیری قربت سے جل رہا ہوں 
ستاروں سے کہو آہستہ بولیں 
مری راتوں کی وحشت سورہی ہے 
ہندستان اور صوبہئ بہارسے پروفیسرظفر امام نمائندگی کر رہے تھے، وہ اپنی غزلوں سے منتخب اشعار پیش کرتے رہے۔بو لتے ہوئے مصرعے، کاٹ دار لہجہ اور ہم عصر زندگی کے سچے تلازمات۔ اُنھیں سنجیدگی سے سنا گیا اور خوب خوب داد ملی۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ایک دروازے میں سو دیوار ہیں 
پارکر جاؤ تو بیڑا پار ہے 
زندگی جینے کی چاہت میں چلو 
یہ عبادت ہے،عبادت میں چلو 
مسکراتے ہوئے مقتل کی طرف
قتل ہو جانے کی جرآت میں چلو 
پانواپنے ہیں زمیں اور کی ہے 
دل مرے اپنی ریاست میں چلو
بر طانیہ سے جناب پرویز مظفر اس آن لائن مشاعرے میں شریک ہوئے۔ انھوں نے ایک طرف سیاسی اور سماجی ماحول پر کرب آمیزتجربوں کی پیش کش کو ضروری سمجھا تو دوسری طرف انسان اورا نسانیت پر قائم بہت سارے سوالوں کو بھی اپنی گفتگو کے مرکز میں رکھا۔ شہری زندگی کے ساتھ نئی تہذیب کے بکھراؤ کو بھی انھوں نے موضوع بحث بنایا۔ مہجریت کا کرب اُن کے بعض اشعار کو یادگار بناگیا۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اپنی عادت ہے کچھ نہ کہنے کی 
حدبھی ہوتی ہے ظلم سہنے کی 
آکر وطن سے دور ترقی کے داؤں میں 
پردیس ہم نے باندھ لیے اپنے پانو میں 
انسان میں دیکھی ہے فرشتے کی صفت بھی 
ہم نے درندہ اسی انسان میں دیکھا
پاکستان کے مشہور شاعر اور دنیا بھرکے مشاعرں میں اپنی شہرت کا سکّہ قائم کرنے والوں میں عباس تابش شریک تھے۔بزمِ صدف کے چیر مین شہاب الدّین احمد اور ناظم مشاعرہ نے ان سے جی بھر کے کلام سنانے کی گزارش کی۔ سادہ اور صاف زبان میں سامنے کی زندگی عباس تابش کی شاعری میں ڈھل کر پیش ہو رہی تھی۔ہم عصر زندگی اور معاشرتِ قدیم سب کی رنجشیں اور مبارزتیں عام ہو رہی تھیں۔سیاست کاگہرا دباؤ اور اُس کشمش میں عوام کا مبتلا ہونابھی ان کی شاعری میں نظر آرہا تھا۔دس سے زیادہ غزلیں اُن سے سنی گئیں۔ اُن چن کے منتخب اشعار ملاحظہ ہوں:
ہمارے جسمو ں کی اینٹیں لگائی جاتی ہیں 
ہمیں ٹھکانے لگا کر ٹھکانہ بنتا ہے 
عجیب لوگ ہیں یہ خاندان عشق کے لوگ 
کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے 
وہ پہلے کاٹتے ہیں پانوچلنے والے کے 
پھر اس غریب  کے لکڑی کے پانو بیچتے ہیں 
تو اپنے بخت کا مجھ سے مقابلہ مت کر 
کہ میرے پاس یہ کشکول بھر زیادہ ہے 
میں اس لیے بھی وطن لوٹ کر نہیں جاتا 
مجھ غریب کی عزّت اِدھر زیادہ ہے 
میں باقی عمر پرندوں میں رہنا چاہتا ہوں 
مرے لیے کسی پنجرے کا انتظام کریں 
لگتا ہے وہی دن ہمیں گزار ے ہیں ترے ساتھ 
وہ دن جو تجھے اپنا بنا نے میں لگے ہیں 
تو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا لیکن 
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے 
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو 
یہ کسی شہر کو منتقل نہیں ہونے دیں گے 
پھر اس کے بعد یہ بازارِ دل نہیں لگتا 
خرید لیجے، صاحب غلام آخری ہے 
ہمارے جیسے وہا ں کس شمارمیں ہوں گے 
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے 
اپنے ہمزاد درختوں میں کھڑاسوچتا ہوں 
میں تو آیا تھا انھیں آگ لگانے کے لیے
کس طرح ترکِ تعلق کا میں سوچوں تا بش
ہاتھ کو کا ٹنا پڑتا ہے چھڑانے کے لیے 
رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے 
چاند دیوار پہ رکھا ہو سر لگتا ہے 
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا 
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے 
بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری کو دعوت دی گئی۔ وہ ناقد اور محقق ہیں مگر شعر بھی کہتے ہیں۔ اُن کے ان اشعار کو لوگوں نے توجہ سے سنا:
قتل کے خونیں مناظر دیکھتے رہ جائیں گے
اس وراثت میں ہمارے مسئلے رہ جائیں گے
سب کے کاندھے پر سلگتے موسموں کا قہر ہے
ایٹمی بارش میں آدم کھوکھلے رہ جائیں گے
رات رانی ہے، وہ راجاؤں میں گھر جاتی ہے
دن تو مزدور ہے، کس طرح گزارا ہوگا
منہ میں اک لفظ نہیں، ہاتھ میں زنجیریں ہیں 
گھُپ اندھیرے میں مرے خواب کی تعبیریں ہیں 
لپٹا ہوا ہے جسم سے جو بوجھ، ہٹ سکے
سورج کرو بلند کہ سایہ بھی گھٹ سکے


مشاعرے میں سب سے بزرگ شاعر کی حیثیت سے جناب ضامن جعفری شریک ہوئے۔ موجودہ عہد میں اردو کی ظریفانہ شاعری میں وہ سب سے بزرگ اور محترم شاعر ہیں۔انھوں نے۵۵۹۱ء سے اپنی شعر گوئی کا آغاز کیا۔ اُن کی زبان کا ایک خاص معیار ہے اور اسی طرح اُن کی ظرافت کبھی پھکڑ پن کا شکار نہیں ہوتی۔مشاعروں میں انھوں نے اپنی دو سنجیدہ غزلیں ابتدائی طور پر پیش کیں جن میں بدلتی ہوئی دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کے اپنے تجربات بول رہے تھے۔طنزیہ کیفیت کی وجہ سے ایک خاص ذائقہ فراہم کر رہے تھے مگر ضامن جعفری سے ترنم کے ساتھ فرمائش فطری تھی۔’مولوی صاحب جنّت میں‘ جیسی خالق نے ایک ایسی نظم پیش کی جس میں موجودہ عہد کے مشاعروں میں جو پیشے ور قوم اور بالخصوص متشاعر اور شاعرات کی آمد سے جو منظر نامہ بدلا ہے، بڑے لطیف انداز میں اس کا تذکرہ کیا گیا تھا۔اس نظم کا پہلا شعر کچھ یو ں تھا:
ایک بزمِ شعر میں یہ فضابیش و کم رہی 
صنفِ سخن سے صنفِ سخن وراہم رہی
ضامن جعفری کے غزلیہ اشعار ملاحظہ ہوں: 
کوئی کچھ تو کہے، میں ٹھیک تو ہوں 
کیوں کھڑے ہیں مرے سرھانے لوگ 
وقت خود ان میں زندہ رہتا ہے،
خودد میں ہوتے ہیں جو زمانے لوگ 
میں اصولوں کی جنگ لڑتارہا 
داد دیتے رہے سیانے لوگ 
یہ مسندِ انصاف ہے،محروم بصارت 
ہر حرف صداقت میں یہاں جھول رہا ہے 
یہ لاش یقینا کسی سچائی کی ہوگی 
جم جم کے ہراک قطرہ ئخوں بول رہا ہے 
اس مشاعرے کی صدارت معتبر لب ولہجہ کے شاعر جلال عظیم آبادی کر رہے تھے۔ جلال عظیم آبادی کا شعری مجموعہ ’کہکشاں‘اب تک چار بار شائع ہو چکا ہے جس سے اُ ن کی مقبولیت سمجھی جاسکتی ہے۔ بنگلا دیش کے مرکز ڈھاکہ میں وہ مقیم ہیں۔ وہ کلاسیکی لہجہ کے شاعر ہیں۔ بڑے نفیس ترنم کے ساتھ انھوں نے غزل سنائی۔ روایت کی پاسداری اُن کے کلام کا خاص حسن ہے جس کے سہارے نئے زمانے کی وہ ہر بات کر لیتے ہیں۔ اُنھوں نے آغازمیں ایک نظم’پتھّر‘ عنوان سے بھی پیش کی۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: 
خوشی ملی بھی تو ایسی کوئی خوشی نہ ہوئی 
جو غم ملا بھی تو آنکھوں میں کچھ نمی نہ ہوئی 
جو ہوسکے تو کوئی اور تجربہ کر لو 
ہمارے گھر کو جلا کر بھی روشنی نہ ہوئی
مسیحا تم نے مداوا تو کر دیا لیکن 
جلا ل  درد میں میرے کوئی کمی نہ ہوئی 
بزم صدف انٹر نیشنل کی کویت شاخ کے افتتاحی پروگرام کے موقعے سے منعقد یہ مشاعرہ تین گھنٹوں تک چلا۔ مشاعرے میں  مختلف شعرائے کرام نے اپنابہترین کلام پیش کیا اور معیار کا خاص طور سے خیال رکھا۔ مشاعرے میں ہر نسل کی نمائندگی ہوئی اورمختلف طرز کے کلام سے سامعین محظوظ ہوئے۔ ایسے شعرا نے بھی کلام سنایا جن کی شہرت اُس قدر نہیں ہے، مگران کا کلام خاصا معیاری نظر آیا۔اس اعتبار سے بزمِ صدف کا یہ مشاعرہ عالمی طور پر اردو کے نئے شعرا اور امکانات سے بھری ہوئی نئی نسل کی تلاش و جستجو کے لئے یا دگارتسلیم کیا جائے گا۔

Ads