Masarrat
Masarrat Urdu

سپریم کورٹ کی روک کے باوجودمدارس اسلامیہ کے خلاف کاروائی توہین عدالت کے مترادف:مولانا ارشد مدنی

  • 26 May 2025
  • مسرت ڈیسک
  • مذہب
Thumb

نئی دہلی، 25 مئی(مسرت ڈاٹ کام) ملک کے کچھ حصوں میں مدارس کے خلاف جاری مہم کے سدباب کے لئےاعظم گڑھ کے سرائے میرمیں یکم جون کو جمعیۃعلماء ہند کا ’کل ہند تحفظ مدارس کنونشن‘ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں مسالک سے بالاترہوکر مدارس کے ذمہ داران کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

آج  یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی  پٹیشن پر 21اکتوبر 2024کو سابق چیف جسٹس وی آئی چندرچوڑ کی سربراہی والی 3  رکنی بینچ نے مدارس اسلامیہ کے خلاف کسی بھی کاروائی پر اور ان تمام نوٹسوں  روک لگا دی تھی جو مختلف ریاستوں خاص پر اترپردیش حکومت کے ذریعے مدارس کو  جاری کئے گئے تھےاور اس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی طرف سے مزید نوٹس  جاری کئے جانے تک کی مدت کے دوران اس تعلق سے اگر کوئی نوٹس یا حکم نامہ  مرکز یا ریاست کی طرف سے جاری ہوتا ہے تو اس پر بھی بدستور روک جاری رہے  گی۔
سپریم کورٹ کی اس روک کے باوجوداترپردیش کے ان تمام مسلم  اکثریتی اضلاع میں جن کی سرحد نیپال سے ملتی ہیں مدارس ہی نہیں  درگاہوں،عیدگاہوں اورقبرستانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی بے روک ٹوک سے نہ  صرف جاری ہے بلکہ اب تک سیکڑوں مدارس کو غیر قانونی قراردیکر سیل  کیاجاچکاہے اورذرائع کے مطابق متعددمدارس کو مسماربھی کیا جارہاہے، افسوس  کی بات تویہ ہے کہ درست کاغذات ہونے کے باوجودیہ مہم جاری ہے جس کولیکر  مسلمانوں میں سخت تشویش اورخوف ودہشت کی لہرپھیل گئی ہے۔
واضح  رہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے داخل کی گئی پٹیشن پر ہی سپریم کورٹ نے  مدارس کے خلاف کارروائی پر روک لگائی تھی، اوراب مدارس کے خلاف جو نئی  شرانگیز مہم شروع ہوئی ہے جمعیۃعلماء ہند اس کے خلاف اپنا شدید احتجاج درج  کرانے اورمدارس کے ذمہ داروں کے صلاح ومشورہ سے آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے  کی غرض سے یکم جون 2025کو اعظم گڑھ کے سرائے میرمیں واقع جامعہ شرعیہ فیض  العلوم میں ’تحفظ مدارس کنونش‘منعقد کرنے جارہی ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس  کنونشن میں تمام مسالک کے مدارس کے ذمہ داران اور عہدیداران کوشرکت کی دعوت  دی گئی ہے، کنونش کے انعقاداورانتظام کی تمام ترذمہ داری جمعیۃعلماء  اترپردیش کے صدرمولانا اشہدرشیدی کو سونپی گئی ہے۔اس میں جمعیۃعلماء ہند کے  صدرمولانا ارشدمدنی اس کنونشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں گے۔
مولانا  ارشد مدنی نے کہا کہ افسوس پچھلے کچھ برسوں کے دوران جس اندازکی سیاست ملک  میں ہوئی ہے اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہواالٹے مسلمانوں کے ساتھ  ان کے تعلیمی اداروں یعنی مدارس کو بھی نشانہ پر لے لیا گیا تاکہ نہ صرف یہ  کہ مسلمانوں کو سیاسی طورپر کمزورکردیاجائے بلکہ انہیں مذہبی تعلیم سے بھی  ہر ممکن طریقہ سے محروم رکھاجائے، نیز اس مہم کے پیچھے سیاست کارفرماہے،  یہ مہم نہ صرف سپریم کوٹ کی ہدایات کی صریحا خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے ذریعہ  آئین کی ان دفعات کو بھی پیروں تلے روندنے کی کوشش ہورہی ہے جس میں  اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اورانہیں چلانے کی مکمل آزادی دی  گئی ہے۔آئین کی دفعہ  30(1)کے تحت تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کو جہاں تحفظ  دیا گیا ہے وہیں دفعہ 25 کے تحت ضمیر کی آزادی اور 26کے تحت اقلیتوں کو  اپنی مذہبی تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔
سپریم  کورٹ بھی متواتر یہ تبصرہ کرتی رہی ہے کہ ان دفعات کے تحت اقلیتوں کو جو  اختیارات دئے گئے ہیں اس میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاسکتی۔2014 میں  سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ حق تعلیم ایکٹ 2009  کا اطلاق ان تعلیمی اداروں پر نہیں ہوگا جو اقلیتوں کے ذریعہ چلائے جارہے  ہیں۔اور ساتھ ہی اس کی دفعہ 1(5)   ایکٹ کی کوئی شق بھی مدارس، پاٹھ شالہ،  گوروکل اور اسی طرح کے دیگر تعلیمی اداروں پر لاگو نہیں ہوگی۔
مولانامدنی  نے کہا کہ یہ مہم مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر ایک سنگین حملہ ہے  جمعیۃعلماء ہند اس کے خلاف قانونی جدوجہدکررہی ہے اورتحفظ مدارس کنونشن کا  انعقادکرکے مدارس کے تمام ذمہ داران کے اتفاق رائے سے مدرسوں کے تحفظ کے  لئے ایک جامع اورمؤثرحکمت عملی بھی تیارکرنے کی کوشش کی جائے گی، یہ وقت  مسلکی اختلافات میں الجھنے کا نہیں بلکہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرنے  کا ہے کیونکہ مدارس کے خلاف جو مہم شروع ہوئی ہے اس میں تمام مسالک کے  مدرسے شامل ہیں۔  جمعیۃعلماء ہند کا ماننا ہے کہ پہلے اتراکھنڈاوراب  اترپردیش میں غیر قانونی قراردیکر مدارس کو بندکرنے کی جو مہم شروع کی گئی  ہے یہ بہت خطرناک ہے ابھی یہ نیپال کے سرحدی اضلاع میں ہی شرو ع ہوئی ہے  لیکن کل کو نہ صرف اس کا دائرہ بڑھ سکتاہے بلکہ نئے مدارس کے قیام میں بھی  دشواریاں پیداکی جاسکتی ہیں، حالانکہ یہ بات تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ  انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزادکرانے کی مہم علماء نے ہی شروع کی تھی،  یہ علماء مدرسوں کے ہی پیداوارتھے۔یہی نہیں دارالعلوم دیوبند قائم ہی اسی  لئے کیا گیا تھا تاکہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے اورملک کو آزادکرانے  کیلئے مجاہدپیداکئے جائیں  جو لوگ مدارس کے خلاف یہ سب کررہے ہیں وہ لوگ  مدارس کے کردار سے نابلد ہیں۔جمعیۃ علماء ہند کا تعلق مدارس اسلامیہ سے  ہے،ہمارے سارے اکابر یہی سے پڑھ کر باہر نکلے،درحقیقت جمعیۃ علماء ہند  مدارس اسلامیہ کی آواز اور ان کا ذہن ہیں۔فرقہ پرست طاقتیں اس تاریخ سے بھی  نابلد ہیں کہ یہ مدارس علماء ہی ہیں کہ جب پوری قوم سو رہی تھی تو انہوں  نے ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کا صور پھونکا تھا۔

Ads