Masarrat
Masarrat Urdu

مسلمانوں کی پریشانی کب ختم ہو گی

Thumb


     اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ دنیا بھر کے ممالک میں ہمیشہ سے بادشاہت ہے، ڈکٹیٹرشپ ہے یا روم کی طرح چند آدمیوں کی حکومت ہے)  Oligarchy          )۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکہ میں جمہوریت، روس میں کمیونزم اور دیگر ممالک میں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ کا قیام ہوا۔ہر قسم کی حکومت میں اچھے اور انصاف پسند حکمران بھی آئے اور ظالم حکمران بھی مگر سوائے ایک یا دو کے کسی بھی حکمران نے اپنے ہی مذہب کا پرچار اور اپنے ہی مذہب کے لوگوں کا بھلا نہیں چاہا بلکہ ہر مذہب کے ماننے والی رعایا کا خیال رکھا اور اپنی حکومت میں اور اپنی انتظامیہ میں اور اپنی فوج میں ہر جگہ پر ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر مقام دیا۔ یہ سب اس لئے کہ وہ حکومت کر نا چاہتے تھے اور اپنی بادشاہت قائم رکھنا چاہتے تھے۔یوں تو کئی مثالیں ہیں مگر ایک دو مثالیں دوں تو مہارانا پرتاب،شیواجی مہاراج، شہنشاہ اکبر، اورنگ زیب، ٹیپو سلطان کی مثالیں کافی ہیں۔ ان بادشاہوں نے اپنے مذہب کو فروغ دینے کے لئے حکومت نہیں کی۔ اب جمہوریت ہے جس میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرتے ہیں۔یہ نمائندے بھی بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کی طرح اچھے  ؁ اور ظالم بھی ہوتے ہیں۔ہر بادشاہ کے دور حکومت میں قتل و غارتگری ہوی، لنچنگ ہوی، انصاف بھی  ہوا، رحمدلی بھی ہوی، کچھ کو انعام و اکرام سے نوازا بھی گیا اور کچھ کو بدلے کے جذبے سے قید بھی کیا گیا اور قتل بھی کیا گیا۔فرمابرداروں کو انعام و اکرام سے نوازا بھی گیا اور نا فرمانی پر لوگوں کی مال و دولت ضبط بھی کر لی گئی اور موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا۔ عوام مرضی سے یا ناراضی سے یہ سب کچھ برداشت کر تی رہی۔یہ سب خبریں اسی دیہات یا شہر یا ریاست تک محدود رہتی تھیں کیونکہ اس وقت نہ اخبارات تھے اور نہ ہی ٹیلیویژن تھا۔ آج بھی ہر ملک میں اور ہر قسم کی حکومت میں وہی کچھ ہو رہا ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ آج میڈیا کے ذریع ساری دنیا کو ان باتوں کا علم ہو جا تا ہے۔یہ سلسلہ اس وقت بھی تھا، آج بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔جمہوریت کے آنے سے یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا یہ سوچنا غلط ہے کیوں کہ تب بھی آدمی ہی اقتدار میں ہو تے تھے اور جمہوریت میں بھی۔ ایسے میں حالات سے سمجھوتہ کر نا یا اس کا مقابلہ کر نا اس کے لئے صرف دو راستے ہیں۔ مقابلہ کر نے کے لئے فرد کی نہیں افراد کہ ضرورت ہو تی ہے۔ دنیا میں ہر کوئی انصاف مانگتا ہے مگر جب خود اقتدار میں رہتا ہے تو دوسروں کو بہت کم انصاف دیتا ہے۔بادشاہوں کے زمانے میں بھی پولیس ہو تی تھی جنہیں داروغہ اور سپاہی کہا جاتا تھا جن کا کام ملک میں امن و امان قائم رکھنا، چوری ڈکیتی کو روکنا اور جرائم کو کنٹرول کر نا ہو تا تھا۔اکثر لوگ پولیس کو ظلم و زیادتی سے تعبیر کر تے ہیں مگر یہ بہت کم سوچتے ہیں کہ اگر پولیس نہ رہی تو کیا ہو گا۔ آخر پولیس میں بھی ہم جیسے انسان ہی  تو ہیں، کوئی فرشتے تو نہیں۔ اگر کہیں دنگا فساد ہو تا ہے تو پولیس خاطیوں کو پکڑ کر قید کر دیتی ہے ۔ انسان ہو نے کے ناطے انہیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ ہجوم میں کس نے توڑ پھوڑ کی، کس نے گاڑیاں جلائیں، کس نے دوکان اور مکان جلائے؟ بس جو سامنے ملا اور جو کیمرے میں نظر آیا اسے گرفتار کر لیتے ہیں۔ اکثر جو لوگ جرم کرتے ہیں وہ جگہ خالی کر کے چھپ جاتے ہیں۔ ایسے میں کون پولیس کو بتائے گا کہ کس نے جرم کیا، کس نے توڑ پھوڑ کی اور کون معصوم ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر میں اور آپ پولیس کی جگہ ہوتے تو ہم کیا کر تے۔ یہ کیسے طئے کر تے کہ کون معصوم ہے اور کون خطا کار۔عوام  میں سے کیا کوئی بتا ئے گا کہ کون ملزم ہے اور کون نہیں۔ پولیس پر الزام لگا نا آسان ہے مگر ان کی جگہ ہم کیا کر تے یہ سوچنا مشکل ہے۔ جب ہم اپنے ہی گھروں میں کئی معاملات میں انصاف نہیں کر سکتے تو ہم کیسے امید کریں کہ ہر معاملہ میں حکومت اور عدالتیں مکمل انصاف کریں۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کسی بھی قوم کے نوجوان قانون کو کیوں اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور کیوں توڑ پھوڑ اور لوٹ گھسوٹ کر تے ہیں۔ کسی ایک شر یر کی غلط حرکت یا اشتعام انگیزی کو لے کر کیوں پر امن شہریوں کے دوکان اور مکان جلاتے ہیں۔ کیا ایسوں کو سزا دینا غلط ہے؟ کئی حضرات جو نوجوانوں کو اکسا تے ہیں وہ تو کبھی سامنے نہیں آتے۔ بس اکسا تے ہیں، جذباتی تقریریں کر دیتے ہیں اور گھروں میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھی وہ احتجاج کر نے کے لئے سڑکوں پو اتر تے ہیں تب ان کے دشمن غنڈے عناصر انہیں کے حلیہ اور لباس میں مجمع میں شامل ہو کر سوچی سمجھی اسکیم کے تحت پولیس پر پتھراو کر تے  ہیں، گاڑیان اور دوکانیں جلاتے ہیں اور فوراً غائب ہو جاتے ہیں۔اس میں جذباتی مسلم نوجوان بھی اور ڈرگ مافیا بھی شامل ہو جاتے ہیں مگر بدنام ہو تے ہیں مسلمان۔ اب پکڑے جاتے ہیں وہ نوجوان جو مو قعہ واردات پر ہو تے ہیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں مساجد، مدرسے اور مذہبی حضرات زیادہ ہو تے ہیں۔یہ اگر موقعہ واردات پر فوراً پہنچ جائیں اور نوجوانوں  کویقین دلائیں کہ وہ معاملہ کو سنبھال لیں گے تو نوجوان خاموش ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟پولیس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس شخص کو فوراً گرفتار کر لے جو بد امنی پھیلانے کا محرک ہے۔ ہم مسلمانوں کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ ہم وہ سب کر تے ہیں جو ہمیں نہیں کر نا چاہیے جیسے نعرے بازی۔ پتھر بازی، گالی گلاج، توڑ پھوڑ اور غیر ضروری بحث مگر وہ نہیں کر تے جو کر نا چاہیے جیسے اپنے بڑوں اور لیڈروں سے شکایت، ان کی سر پرستی میں  پولیس میں شکایت ، حکومت سے شکایت اور عدالتوں میں مقدمے دائر کر نا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ کرنا ٹک کے باہر کی ریاستوں سے آئے ہوے حضرات کا ہم مسلمانوں میں نفرت کا پھیلانا۔ ہمیں آپس میں لڑانا  نوجوانوں کو اکسانا اور جذباتی تقریریں کر نا عام ہے۔غیر مسلموں کے مالداروں کی اکثریت اپنے آپ سے والنٹری طور پر عدالتوں میں مقدمے دائر کر نے کے لئے روپیے خرچ کر تے ہیں اور ان کے اڈوکیٹس مفت میں کیس لڑتے ہیں۔ اب تک ہم نے نا انصافیوں کو لے کر جتنے بھی احتجاج کئے، جتنے بھی جلسے جلوس نکالے اور جتنا بھی چیخ و پکار کئے اس کا نتیجہ ہمیشہ صفر رہا۔مسلم مالداروں کی اکثریت والنٹری طور پر بہت کم خرچ کر تے ہیں اور ہمارے وکیلوں کی اکثریت بھی مفت میں یا والنٹری طور پر کوئی  قوم کا کیس نہیں لیتے۔پچھلے تیس سالوں سے مرحوم شمش الھدا صاحب اور ہم سب نے بہت کوشش کی کہ والنٹری طور پر مسلمانوں کے اجتمائی کیس لڑنے کے لئے کم سے کم پانچ مسلم اڈوکیٹوں کا ایک گروپ تیار کریں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نا کام ہو گئے۔مالدار ملنے اور بیٹھنے اور غور کر نے کے لئے  اور اڈوکیٹس والنٹری طور پر آگے آنے کے لئے تیار نہیں۔اب جب قوم اتنی ساری مشکلوں سے گزر رہی ہے تو اب ضرورت ہے کہ یہ دونوں طبقے آگے آئیں اور ملت کی خدمت کریں۔ہمارے مالداروں میں اتنی انا ہے اور وہ اپنے آپ کو اتنے مشغول بتا تے ہیں کہ انہیں کسی ایک جگہ جوڑنا اور سمجھانا مشکل ہے۔کوشش تو برابر جاری ہے مگر ہر طرف مشکل ہی کا سامنا ہے۔جو اڈوکیٹ خاندانی مالدار ہیں وہ اگر ہر ریاست میں  پانچ بھی مل کریہ کام کر نے لگے تو ملت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ جو خرچ ہو گا وہ مالدار حضرات دیں گے۔مسلم دشمن عناصر کو یہ راز اچھا پتہ چل گیا ہے کہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے کمزور کر نے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ان کے اسلام کے اور ان کے پیغمبر ْ کے خلاف کچھ کہہ دو یا لکھ دو مسلمان خود بخود احتجاج کرتے ہوے سڑکوں پر نکل آئیں گے اور توڑ پھوڑ کریں گے  (اگر مسلمان خاموش احتجاج کریں تو فرقہ پرست خود مسلمانوں کے لباس اور حلیہ میں نعرے بازی، پتھر بازی اور توڑ پھوڑ کریں گے اور سارا الزام مسلمان نوجوانوں پر ڈال دیں گے)۔ ایسے میں ہمارے ذمہ دار حضرات آگے آنے اور مسلم نوجوانوں کو سمجھانے میں ناکام ہو جائیں گے۔پھر کیا ہو گا  خود کے مکان اور دوکان جلا لیں گے، کاریں اور گاڑیاں جلا لیں گے، پولیس پر حملہ کریں گے، لاٹھی چارج ہو گا، گولیاں چلیں گی، چار پانچ مسلمانوں کی لاشیں گریں گی،پانچ یا چھ سو مسلمان گرفتار ہوں گے اور بعد ہر کوئی کہنے لگے گا کہ معصوم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔حکومت اور پولیس پر نکتہ چینی ہو گی اور پھر برسوں مسلمان جیلوں اور عدالتوں کے چکر کاٹتے رہیں گے۔ اس سے اگر بچنا ہو تو ہر ریاست میں پانچ مالداروں کا ایک گروپ اور پانچ اڈوکیٹوں کا ایک گروپ بنا نا ہو گا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نا انصافی پر عدالت میں کیس فائل کر نا ہو گا تاکہ نا انصافی کر نے والے عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک ہار جائیں اور دوبارہ نا انصافی کر نے کی ہمت نہ کریں۔ عدالت میں جو فیصلہ ہو تا ہے ہوے مگر ایسوں کو چکر پر چکر لگانے پر مجبور کرنا ضراوری ہے ایسی حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل کر نے کے لئے ایک پانچ رکنی لیڈرشپ ہو نی چاہیے۔ یہ کام دانشور حضرات کر سکتے ہیں۔جب تک یہ نہیں ہو گا ہماری پریشانی ختم نہیں ہو گی۔آج ہماری اکثریت واعظ و تقریر کر نے میں سب سے آگے ہے مگر عملی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔اس حالت کو بدلنا ہو گا اور یہ کام مجھے اور آپ ہی کو کرنا ہو گا۔صرف مشورے دے کر خود کچھ نہ کر نا یہ بہت بڑی غلطی ہے۔

   فون:9980827221

 

Ads