Masarrat
Masarrat Urdu

ہلدوانی تشددمقدمہ:جمعیۃعلماء ہند کی کوشش سے یواے پی کے تحت 75ملزمین کی ضمانت اوردوسرے محروسین کے لئے کوشش جاری

Thumb

نئی دہلی، 30 اکتوبر(مسرت ڈاٹ کام) ہلدوانی فساد معاملے میں پولس زیادتی کے شکار4 ملزمین کی ریگولر ضمانت عرضی پر دو دنوں سے جاری سماعت کا آج اختتام عمل میں آیا جس کے بعد عدالت نے ملزم ذیشان پرویز کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کا اشارہ دیا جبکہ دیگر ملزمین عبدالرحمن،محمد ناظم،ضیاء الرحمن کی ضمانت عرضیوں پر سرکاری وکیل کے اعتراض کے بعد سماعت ملتوی کردی ہے۔

آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق سرکاری وکیل نے اعتراض کیا کہ ملزمین نے ضمانت عرضی داخل کرنے میں تاخیر کی ہے لہذا این آئی اے قانون کی دفعہ 21 کے تحت ان کی عرضیوں پر ہائی کورٹ سماعت نہیں کرسکتی ہے۔ دو رکنی بینچ نے کہا کہ ضمانت کی عرضی مقررہ وقت میں داخل نہیں کیئے جانے کی وجہ سے ہائی کورٹ سماعت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت نے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کو ہدایت دی کہ وہ سپریم کورٹ سے اجازت لیکر آئیں۔ عدالت بقیہ ملزمین کی ضمانت عرضداشتوں پر سماعت کرنے کے لیئے تیار ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ انہیں کچھ ہفتوں کی مہلت دیں تاکہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوسکیں،دو رکنی بینچ نے سینئر ایڈوکیٹ کی درخواست کو قبول کرلیا۔این آئی اے قانون کی دفعہ 21/ کے تحت نچلی عدالت کے فیصلے کو 30/ دنوں کے اندر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہئے لیکن اس معاملے میں چار ضمانت عرضداشتیں تیس دنوں کی مقررہ مدت کے بعد ہائی کورٹ میں داخل نہیں کی گئیں ہیں جس کی وجہ سے عدالت نے سماعت کرنے سے آج انکار کردیا۔گذشتہ کل چار ملزمین کی جانب سے داخل پانچ ضمانت عرضداشتوں پر سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن (سپریم کورٹ آف انڈیا) نے بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ اس مقدمہ میں پولس نے ملزمین کے خلاف یو اے پی اے قانون کا اطلاق کیا ہے تاکہ انہیں ضمانت سے محروم رکھا جاسکے جبکہ اس معاملے میں یو اے پی اے قانون کا اطلاق بنتا ہی نہیں ہے۔ ہلدوانی تشدد معاملہ ایک خالص فساد کا مقدمہ ہے جس میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیئے بنائے گئے یو اے پی اے قانون کا اطلاق ہوتا نہیں ہے۔ہلدوانی تشدد معاملہ پولس اور مقامی افراد کے درمیان ہواتھا، یہ کوئی دہشت گردانہ واقعہ نہیں تھا اور نا ہی ہندوستان کی سالمیت کے خلاف کوئی اقدام تھا۔پولس فائرنگ میں پانچ مسلمانوں کی جانیں گئیں اور مزاہمت کرنے والے مقامی افراد کے خلاف پولس نے تین مقدمات درج کیئے۔

 

اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بتایا کہ ملزمین تقریباً دو سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں، ملزمین کے خلاف فرد جرم داخل کی جاچکی ہے، 76/ ملزمین کی ضمانتیں عدالت منظور کرچکی ہے لہذا عرض گذاروں کی ضمانت عرضداشتیں بھی منظور کی جانی چاہئے۔سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین کے قبضوں سے کوئی بھی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ہے اور نا ہی ملزمین نے پولس نے حملہ کیا تھا، ملزمین محض بھیڑ کا حصہ تھے۔واضح رہے کہ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہلدوانی صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر کررہی ہے۔ جمعیۃ علماء قانونی امدادکمیٹی کی پیروی کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں 50 اور دوسرے مرحلے میں 22 ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت ہائی کورٹ سے منظورہوئی تھی جس میں چھ خواتین کی ڈیفالٹ ضمانتیں بھی شامل ہیں۔ ہائی کورٹ میں سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کی معاونت ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سی کے شرما، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ استوتی رائے، ایڈوکیٹ نتین تیواری، ایڈوکیٹ وجئے پانڈے، ایڈوکیٹ منیش پانڈے، ایڈوکیٹ آصف علی، ایڈوکیٹ دانش علی، ایڈوکیٹ ضمیر احمد، ایڈوکیٹ محمد عدنان ودیگر نے کی جبکہ مولانا مقیم قاسمی (صدر جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد قاسم(ناظم اعلی جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد عاصم (شہر صدرجمعیۃ علماء ہلدوانی)، مولانا محمد سلمان(شہر ناظم جمعیۃ علماء ہلدوانی)ڈاکٹر عدنان، عبدالحسیب و دیگر نے ملزمین کی رہائی کے لیئے ان کی معاونت کی۔8 فروری 2024 کو اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر کے مسلم اکثریتی علاقے بن بھولپورہ میں اس واقعات بد امنی پھیل گئی تھی جب مبینہ طور غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مسجداورمدرسے کا انہدام کرنے کے لیئے پولس پہنچی تھی، انہدامی کارروائی سے قبل پولس اور علاقے کے لوگوں میں جھڑپ ہوگئی جس کے بعد پولس فائرنگ میں پانچ مسلم نوجوانوں کی موت ہوگئی تھی۔اس واقع کے بعد بن بھولپورہ پولس نے 101 مسلم مر د و خواتین کے خلاف تین مقدمات درج کیئے تھے اور ان پر سخت قانونی یو اے پی اے کا اطلاق بھی کیا تھا۔

 

Ads