تہران، 26 اکتوبر (مسرت ڈاٹ کام) ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کا ایٹم بم یہی ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا، انقلاب اسلامی کے آغاز سے اب تک یہی ایران کا طرہ امتیاز ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہے۔ ایران نے کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی، اور عالمی رپورٹس بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں۔
انہوں نے حالیہ علاقائی واقعات کے تناظر میں ایرانی عوام کے اتحاد اور یکجہتی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد ایرانی قوم کی وطن سے محبت اور غیرت کا نتیجہ ہے۔ ایرانیوں نے، چاہے وہ ملک کے اندر ہوں یا بیرون ملک، ایران کی مظلومیت کو محسوس کیا کیونکہ اسرائیل نے حالیہ حملے کے لیے کوئی جواز پیش نہیں کیا۔ ایران نے کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا جس سے حملے کا کوئی بہانہ بنتا۔
عراقچی نے زور دیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔ ایران نے اپنے قانونی حقوق کے تحت کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانیوں میں وطن سے محبت اور حمایت کا جذبہ مزید بڑھا۔
عراقچی نے مزید کہا کہ اگر صہیونی جارحیت کے مقابلے میں ایران کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو طاقتور ممالک ایران کو دھمکا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے۔ لیکن ایرانی عوام نے ثابت کیا کہ وہ اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹتے، جنگ سے نہیں ڈرتے اور اپنے قومی مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ مزاحمت ملک کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے، جسے بچانا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران ہر قسم کے حالات اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے تاہم تیار رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ہونے والی ہے، بلکہ تیاری ہی جنگ کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ اگر آپ تیار نہ ہوں تو دشمن حملہ کرسکتا ہے، لیکن اگر آپ تیار ہوں تو کوئی حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ آج یہ تیاری فوج، حکومت، معاشرے اور عوام میں موجود ہے، اور یہ تیاری 12 روزہ جنگ کے وقت سے بھی زیادہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجربہ دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا، اور اگر کوئی غلطی کرے گا تو اسے اسی طرح کا جواب ملے گا۔
وزیر خارجہ نے ایران کی ایٹمی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاس واضح مذہبی فتوی ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانا حرام ہے۔ ایران کی سکیورٹی پالیسی میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر بھی بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایران یورینیم افزودگی کیوں کرتا ہے اور اس پر اتنا خرچ کیوں کرتا ہے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ افزودگی ایرانی قوم کا حق ہے، اور کوئی بھی ہمیں اس سے محروم نہیں کرسکتا۔
عراقچی نے کہا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت دراصل عالمی طاقتوں کے سامنے 'نہ' کہنے کی طاقت ہے۔ یہ سوچ انقلاب کے آغاز سے موجود ہے اور آج بھی جاری ہے۔ ہماری قوم عزت، غیرت اور خودمختاری کے لیے بڑی قربانیاں دینے کو تیار ہے۔ 'خودمختاری، آزادی اور اسلامی جمهوریت' انقلاب کے بنیادی نعرے تھے۔ ایران کبھی کسی کا غلام نہیں رہا، لیکن پھر بھی عوام نے آزادی کا نعرہ بلند کیا کیونکہ اصل آزادی کا مطلب ہے کہ آپ خود فیصلے کریں۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک امریکہ اپنی بالادستی کی سوچ نہیں چھوڑتا اور ایران اپنی آزادی کی پالیسی پر قائم رہتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ان اختلافات کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ ہر قیمت پر لڑائی ضروری نہیں۔ ہمارے اختلافات بنیادی طور پر امریکہ کی بالا دستی کی سوچ سے جڑے ہیں۔ اگر امریکہ اپنا رویہ بدل لے تو بات چیت ممکن ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ایرانی قوم دھمکی، دباؤ اور پابندیوں سے مرعوب نہیں ہوتی۔ اگر عزت اور احترام سے بات کی جائے تو جواب بھی ویسا ہی ہوگا۔
انہوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب امریکہ نے عزت سے بات کی، ہم نے بھی مثبت جواب دیا، مذاکرات کیے، معاہدہ کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ لیکن بعد میں امریکہ نے معاہدے سے نکل کر ہمیں دھوکہ دیا اس لیے ہم امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال بھی مذاکرات ہوئے، لیکن دوران مذاکرات ہم پر حملہ کیا گیا، امریکہ نے اس حملے کی حمایت کی اور بعد میں خود بھی حملے میں شامل ہوگیا۔ نیویارک میں مذاکرات کا موقع تھا، لیکن ان کی شرائط بالکل غیر منطقی تھیں۔ مثلاً وہ چاہتے تھے کہ ایران اپنا سارا یورینیم دے دے، اور بدلے میں صرف چھ ماہ کی پابندیوں میں نرمی ہو۔ کوئی عقل مند ایسا مطالبہ قبول نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ کبھی کوئی مثبت تجربہ نہیں ملا، حالانکہ ہم نے ہر بار دیانتداری سے بات کی اور سمجھوتے کی کوشش کی۔ ہم امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ ہی کریں گے، لیکن پھر بھی احتیاط سے بات چیت ممکن ہے۔ ہم نے ایسا بھی کیا، لیکن مثبت جواب نہیں ملا۔ یہی امریکہ کا اصل رویہ ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر امریکہ برابری کی بنیاد پر دیانتداری سے باہمی مفاد کے لیے اور باہمی احترام کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہے تو ایران کبھی بھی سفارت کاری کو ترک نہیں کرے گا۔
عراقچی نے کہا کہ ہم ایرانی عوام کے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، اور کسی بھی قسم کی زور زبردستی کو برداشت نہیں کریں گے۔ لیکن اگر کوئی منصفانہ اور عقل مندانہ حل پیش کیا جائے، تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
