Masarrat
Masarrat Urdu

حاج رمضان فلسطینی مزاحمت کے علَم بردار، کوئی بھی ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا، شیخ نعیم قاسم

Thumb

بیروت، 6 اگست (مسرت ڈاٹ کام) حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے شہید حاج رمضان کو فلسطینی مزاحمت کی ترقی میں کلیدی کردار کا حامل قرار دیتے ہوئے لبنان کے اندرونی حالات، مزاحمت کی طاقت، اسرائیلی خلاف ورزیوں اور امریکی دباؤ پر تفصیلی مؤقف پیش کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید محمد سعید ایزدی المعروف حاج رمضان کے چہلم کی مناسبت سے کہا ہے کہ شہید حاج رمضان نے غزہ کی دفاعی منصوبہ بندی اور وہاں مزاحمتی کارروائیوں کے فروغ کی نگرانی کی۔ وہ فلسطینی مزاحمتی اقدام کے فروغ میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اور فلسطینی قومی وحدت کے خواہاں تھے۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ہمارے نزدیک فلسطین صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے، اس لیے ہر کسی کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ حاج رمضان سید حسن نصراللہ کی شہادت کے دو دن بعد لبنان آئے تاکہ خود کو حزب اللہ کی خدمت میں وقف کریں۔

شیخ نعیم قاسم نے لبنان کی داخلی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کی تعمیر اور استحکام کے لیے قومی وحدت اور تعاون ناگزیر ہے۔ ہمیں ایسی ترجیحات اپنانی ہوں گی جو ملکی حقیقتوں سے مطابقت رکھتی ہوں، نہ کہ امریکی یا کسی اور غیرملکی سرپرستی کو قبول کیا جائے۔ حزب اللہ نے جنگ بندی کی مکمل پابندی کی ہے اور حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے، جب کہ اسرائیل نے ہزاروں مرتبہ اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس معاہدے سے پشیمان ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے حزب اللہ کو لبنان میں بطور طاقت برقرار رہنے کا موقع ملا۔ اسی لیے اسرائیل نے اس معاہدے کو توڑ دیا۔

انہوں نے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ لبنان، مزاحمت اور عوام کو ان کی طاقت اور صلاحیتوں سے محروم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، جو سراسر اسرائیل کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملک قربانیوں اور شہادتوں سے بنا ہے، ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ ہم پر اپنی مرضی مسلط کرے۔ باہمی ہم آہنگی اور سمجھوتے کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں۔ سب کو جان لینا چاہیے کہ قومی اتفاق کے بغیر کوئی اقدام نہیں ہوسکتا، یہ ایک اسٹریٹیجک اور بنیادی مسئلہ ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے امریکی ایلچی باراک کی پیش کردہ شرائط پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں حزب اللہ کے 50 فیصد بنیادی ڈھانچے کو ایک ماہ کے اندر ختم کرنے کی شرط اور جنوبی لبنان کی تین جگہوں سے اسرائیلی پسپائی کی بات کی گئی ہے۔ یہ سب صہیونی حکومت کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔ لبنان سے مزاحمتی طاقت چھینی جارہی ہے تاکہ اسرائیل کے مقابلے میں اس کو مزید بے اثر بنایا جاسکے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی نئے معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے۔ صرف مالی امداد کے بدلے میں غلامی قبول کرنا مناسب نہیں۔ اگر ہم نوکر بن جائیں تو مالی امداد کا کیا فائدہ؟

شیخ نعیم قاسم نے خبردار کیا کہ اسرائیل کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ وسیع حملوں کی طرف نہ جائے کیونکہ مزاحمت، فوج اور قوم سب مل کر اس کا دفاع کریں گے اور میزائلوں کے ذریعے صہیونی علاقوں کو نشانہ بنائیں گے۔ وہ سیکیورٹی جو آٹھ ماہ سے اسرائیل کو حاصل تھی، ایک گھنٹے میں ختم ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے ہتھیار رکھ دیں تو حملے بند نہیں ہوں گے؛ خود اسرائیلی حکام بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا اسرائیل، امریکہ اور کچھ عرب ممالک کی خواہش پر ہتھیاروں سے دستبرداری کو لبنان کی حاکمیت کی ضمانت دے گا؟ اگر آپ دفاع نہیں کرسکتے تو آئیں، مزاحمتی طاقت کو محفوظ اور مضبوط کریں۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ مقاومت ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر قومی اتفاق رائے کے ذریعے بات کی جاسکتی ہے۔ آئیں، قومی سلامتی اور دفاعی حکمت عملی پر گفتگو کریں۔ ہمیں ان فتنہ پروروں سے ہوشیار رہنا ہوگا جو خونریز سازشوں میں ملوث ہیں اور اسرائیلی منصوبوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔

شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ کوئی بھی لبنان سے اس کی خودمختار قوت اور سیاسی حیثیت نہیں چھین سکتا، اور کوئی بھی اس کی سربلندی کو روک نہیں سکتا۔ ہم نے اس جارحیت کو روکا جو بیروت پر قبضے اور لبنان کی اسٹریٹیجی کو بدلنے کے لیے کیا گیا تھا۔ مزاحمت آج بھی مضبوط اور سربلند ہے۔

Ads