اس پریس کانفرنس سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، جمیعت العلماء ہند، جماعت اسلامی ہند ، مرکزی جمعیت اہل حدیث ، ایس آئی او و دیگر ملی تحریکات کی قیادت اور نمائندہ مذہبی اسکالرز نے خطاب کیا۔
قائدین نے اپنے خطاب میں غزہ کی موجودہ صورتِ حال کو انسانی تاریخ کے بدترین ابواب میں سے ایک قرار دیا اور خبردار کیا کہ وہاں قحط ایک ہولناک بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ اگر ہم اس نازک لمحے میں خاموش رہیں تو یہ تاریخ کا انتہائی سنگین اور نا قابل معافی جرم ہوگا۔
میڈیا کو جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ "اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے باعث غزہ کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ 20 لاکھ سے زائد شہری شدید غذائی قلت، صحت کے نظام کی تباہی اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا کر رہے ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ اسپتال یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں یا ناقابلِ استعمال ہو چکے ہیں۔ کئی دیہات اور محلّے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ غذائی قلت کے سبب معصوم شہری اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ ایندھن کی قلت اور عدم دستیابی کے باعث نوزائیدہ بچے انکیوبیٹرز میں دم توڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر بغیر انستھیزیا کے سرجری کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت غزہ میں انسانی زندگی کی تقریباً تمام بنیادی ضروریات ناپید ہو چکی ہیں اور یہ سب کسی دفاعی کارروائی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت اسرائیل کی جانب سے غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
پریس کانفرنس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوستان کے اس حالیہ بیان کی ستائش کی گئی، جس میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ رہنماؤں نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ موقف قابل تعریف ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا ملک صرف تشویش کا اظہار نہ کرے بلکہ آگے بڑھ کر اس مسئلہ کے حل کے لیے موثر قائدانہ کردار ادا کرے۔ یقینا ظلم کی زبانی مذمت بھی اہم ہے لیکن حالات ہم سے زیادہ موثر اور فوری عملی کاوشوں کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ وطن عزیز کے پاس ظلم کے خلاف جدو جہد کی شاندار تاریخی روایت اور سفارتی صلاحیت دونوں موجود ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس نسل کشی کے خلاف قائدانہ رول اد کرسکتے ہیں ۔
اس موقع پر اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ انسانی بنیادوں پر فوری طور پر غزہ کے لیے امدادی راہداریوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور بنیادی ضروریات کا سامان بڑے پیمانے پر ہر ایک ضرورت مند تک پہنچایا جائے ۔ جب تک اسرائیلی جارحیت بند نہ ہو، ہندوستان اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام عسکری و اسٹریٹجک تعلقات معطل کرے۔ جب ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، تو ایسی صورت میں ہمارے لیےخاموش یا غیرجانبدار بنے رہنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔
پریس کے ذریعہ مسلم قائدین نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ فلسطین اور غزہ کے مسئلہ کے سلسلے میں سمجھ اور حساسیت پیدا کریں۔ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ساری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ طلبہ، سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں، ماہرینِ تعلیم اور با ضمیر شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں- چاہے وہ مارچ ہوں، احتجاجی جلسے ہوں، بیداری مہمات ہوں، علمی مذاکرے ہوں یا بین المذاہب پروگرام، عوام بڑے پیمانے پر اس میں شرکت کرے۔ غزہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ بعض حلقوں کی جانب سے فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کو مجرمانہ فعل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔ رہنماؤں نے زور دیا کہ فلسطین کی حمایت کوئی جرم یا انتہا پسندی نہیں بلکہ انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور ہندوستانی آئین میں درج بنیادی اقدار کے عین مطابق ہے اور اس سے آگے بڑھ کر ہر باضمیر انسان کی اخلاقی و انسانی ذمہ داری ہے۔
اس موقع پرمسلم اکثریتی ممالک سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کریں اور اس غیر انسانی جارحیت کے خلاف متحدہ محاذ قائم کریں۔
پریس کانفرنس کا اختتام فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محاصرہ کے خاتمے ، عوام کو خوراک، پانی، ایندھن اور طبی امداد کی فراہمی اور امدادی راہداریوں کا قیام کے مطالبہ کے ساتھ ہوا۔ اس موقع پر مسلم تنظیموں کا مشترکہ اعلامیہ بھی شرکاء میں تقسیم کیا گیا۔