جسٹس دیپانکر دتا اور اے جی مسیح کی بنچ نے جسٹس ورما کی رٹ پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے ان کے وکیل سے پوچھا کہ انہوں نے داخلی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے جواز کو کیوں چیلنج نہیں کیا اور اگر یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے تو اس کے دائرۂ اختیار کو کیوں قبول کیا۔
بنچ نے جسٹس ورما کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل سے سوال کیاکہ ’’جب کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تو آپ نے چیلنج کیوں نہیں کیا؟ آپ نے انتظار کیوں کیا؟ ججوں نے پہلے بھی ان کارروائیوں میں حصہ لینے سے گریز کیا ہے‘‘۔بنچ نے پوچھا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ داخلی انکوائری رپورٹ صرف حقائق تلاش کرنے والی دستاویز ہے، نہ کہ ثبوت اور وہ اس سے کیسے مطمئن ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ججوں کو (جانچ ) ایکٹ کے تحت ہونے والی انکوائری کو معاملے کی تحقیقات کرنے اور حلف کے تحت ثبوت لینے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں نےداخلی طریقۂ کار کے تقدس کو برقرار رکھا ہے۔
اس پر سینئر ایڈوکیٹ سبل نے جواب دیا کہ ’’لیکن پھر اسے (رپورٹ) میرے خلاف تصور نہیں کیا جا سکتا۔ میں حاضر ہوا ،کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ کمیٹی پتہ لگائے گی کہ یہ کس کی رقم ہے‘‘۔
مسٹر سبل نے یہ بھی دلیل دی کہ چیف جسٹس آف انڈیا کے ذریعہ صدرجمہوریہ اور وزیر اعظم سے درخواست گزار کو ہٹانے کی سفارش کرنا آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ کسی جج کو ہٹانے کی سفارش کرنا چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ صدر اور وزیر اعظم کو رپورٹ بھیجنا غلط تھا کیونکہ تحریک مواخذہ ارکان پارلیمنٹ کوپیش کرنی تھی حکومت کو نہیں۔
اس پر عدالت نے کہا کہ ان کے کیس میں اختیار صدر کے پاس تھا، جس نے وزارتی کونسل کی مدد اور مشورے کے مطابق کام کیا، اس لیے داخلی انکوائری رپورٹ صدر اور وزیر اعظم کو بھیجی جائے۔
مسٹر سبل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نقدی کی برآمدگی کے سلسلے میں جج کے خلاف کوئی کچھ بھی ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس پر بنچ نے کہا کہ انھوں نے (درخواست گزار) نقدی کی موجودگی یا آگ لگنے کے واقعہ سے انکار نہیں کیا۔ پھر وکیل نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ نقدی کس کی تھی۔ اب سپریم کورٹ کیس کی اگلی سماعت بدھ کے روز کرے گی۔
اپنی درخواست میں، جسٹس ورما نے دہلی ہائی کورٹ میں جج ہونے کے دوران اپنی سرکاری رہائش گاہ سے مبینہ طور پر نقد رقم برآمد ہونے کے معاملے میں عدالت کی داخلی تفتیشی عمل کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے دہلی سے الہ آباد ہائی کورٹ میں اپنے تبادلے اور متعلقہ انکوائری کمیٹی کی طرف سے جج کے عہدے سے ہٹائے جانے کے جواز کو بھی چیلنج کیا ہے۔
جسٹس ورما کو اس سال مارچ میں دہلی ہائی کورٹ سے ان کی بنیادی عدالت الہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کر دیا گیا تھا جب ان کی رہائش گاہ سے مبینہ طور پر نقدی برآمد ہوئی تھی۔