مسٹر دھنکھڑ کو ہفتہ کو نائب صدر کی رہائش گاہ پر منعقدہ ایک تقریب میں کرناٹک کے سابق ایم ایل اے اور مصنف ڈی ایس ویرایا کی مرتب کردہ کتاب 'امبیڈکر کے سندیش' کی پہلی کاپی پیش کی گئی۔
اس موقع پر نائب صدر جمہوریہ نے دستور کے تمہید میں تبدیلی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ تمہید ہی وہ بنیاد ہے جس پر پورا آئین قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی تبدیلی کسی اور ملک کے آئین کے دیباچے میں نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ "کسی بھی آئین کی تمہید اس کی روح ہوتی ہے۔ ہندوستانی آئین کا دیباچہ منفرد ہوتا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک کے آئین کا دیباچہ تبدیل نہیں ہوا، اور کیوں؟ تمہید ناقابل تغیر ہے۔ تمہید وہ بنیاد ہے جس پر پورا آئین ٹکا ہوا ہے۔ یہ اس کی بیج کی شکل ہے، لیکن یہ ہندوستان کے آئین کی روح ہے، لیکن ہندوستان کی اس تمہید کو 1976 میں 42ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کے تحت تبدیلی کیا گیا اور 'سوشلسٹ'، 'سیکولر' اور 'انٹیگریٹی' جیسے الفاظ شامل کیے گئے۔
مسٹر دھنکھڑنے ایمرجنسی کو جمہوریت کا سیاہ ترین دور قرار دیا اور کہا کہ اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ایمرجنسی ہندوستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دور تھا، جب لوگ جیلوں میں تھے، بنیادی حقوق معطل کیے گئے تھے۔ ان لوگوں کے نام پر ’’ہم بھارت کے لوگ‘‘ جو خود اس وقت غلامی میں تھے، کیا یہ محض الفاظ کی نمائش تھی؟ اس کی الفاظ سے بالاتر مذمت کی جانی چاہیے۔‘‘ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ آئین بنانے والوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اس کی تمہید تیار کی ہوگی لیکن اسے اس وقت تبدیل کیا گیا جب ملک کے لوگ ایمرجنسی کی غلامی میں تھے۔ انہوں نے کہاکہ "ہمیں خود کا جائزہ لینا چاہیے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے یہ کام بہت محنت سے کیا، انہوں نے اس کے بارے میں گہرائی سے سوچا ہوگا۔ ہمارے آئین سازوں نے یہ سوچتے ہوئے تمہید کا اضافہ کیا کہ یہ صحیح اور مناسب ہے۔ لیکن یہ جذبہ ایسے وقت میں تبدیل ہوا جب لوگ غلامی میں تھے۔ ہندوستان کے لوگ، جو سپریم طاقت کا سرچشمہ ہیں، جیلوں میں تھے، نظام انصاف تک رسائی سے محروم تھے۔"
مسٹر دھنکھڑ نے مختلف آئینی بنچوں کی طرف سے آئین کے تمہید کی تشریح کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس تشریح میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تمہید میں اس کے نظریات اور خواہشات کا جوہر موجود ہے۔ یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ان مقاصد پر مشتمل ہے جو آئین حاصل کرنا چاہتا ہے۔