قرآن میں ابو لہب کاذکر کیوں کیا گیا ہے؟
- 19 Sep 2019
- ترتیب: عبدالعزیز
- مذہب
قرآن میں ایک ہی مقام ہے جہاں دشمنانِ اسلام میں سے کسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے، حالانکہ مکے میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام او رمحمد ﷺ کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طرح کم نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص کی وہ کیا خصوصی تھی جس کی بنا پر اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کے عربی معاشرے کو سمجھا جائے اور اس میں ابو لہب کے کر دار کو دیکھ اجائے۔
قدیم زمانے میں چونکہ پورے ملک ِ عرب میں ہر طرف بد امنی، غارت گری اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی، اور صدیوں سے حالت یہ تھی کہ کسی شخص کے لئے اس کے اپنے خاندان اور خونی رشتہ داروں کی حمایت کے سوا جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ اس لئے عربی معاشرے کی اخلاقی قدروں میں صلہئ رحمی (یعنی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک) کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور قطع رحمی کو بہت بڑا پاپ سمجھا جاتا تھا۔ عرب کی انہی روایات کا یہ اثر تھا کہ رسول اللہﷺ جب اسلام کی دعوت کے لر اٹھے تو قریش کے دوسرے خاندانوں اور ان کے سر داروں نے تو حضورؐ کی شدید مخالفت کی، مگر بنی ہاشم اور بنی المطلب(ہاشم کے بھائی مطلب کی اولاد) نے نہ صرف یہ کہ آپ کی مخالف نہیں کی بلکہ وہ کھلم کھلا آپ کی حمایت کرتے رہے، حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لائے تھے۔ قریش کے دوسرے خاندان خود بھی حضور ؐ کے ان خونی رشتہ داروں کی حمایت کو عرب کی اخلاقی روایات کے عین مطابق سمجھتے تھے، اسی وجہ سے انہوں نے کبھی بنی ہاشم او ربنی المطلب کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم ایک دوسرا دین پیش کرنے والے شخص کی حمایت کر کے اپنے دینِ آبائی سے منحرف ہو گئے ہو۔ وہ اس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ اپنے خاندان کے ایک فرد کو وہ کسی حالت میں اس کے دشمنوں کے حوالے نہیں نہیں کر سکتے۔ اور ان کا اپنے عزیز کی پشتیبانی کرنا قریش اور اہل عرب سب کے نزدیک بالکل ایک فطری امر تھا۔
اس اخلاقی اصول کو، جسے زمانہئ جاہلیت میں بھی عرب کے لوگ واجب الاحترام سمجھتے تھے، صرف ایک شخص نے اسلام کی دشمنی میں توڑ ڈالا اور وہ تھا ابو لہب بن عبد المطلب۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا چچا تھا۔ حضور ؐ کے والد ماجد اور یہ ایک ہی باپ کے بیٹے تھے۔ عرب میں چچا کو باپ کی جگہ سمجھا جاتا تھا، خصوصاً جب کہ بھتیجے کا باپ وفات پا چکا ہو تو عربی میں معاشرے میں چچا سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بھتیجے کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھے گا۔ لیکن اس شخص نے اسلام کی دشمنی اور کفر کی محبت میں ان تمام عربی روایات کو پامال کر دیا۔
اب عباسؓ سے متعدد سندوں کے ساتھ یہ روایت محدثین نے نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو دعوت ِ عام پیش کرنے کا حکم دیا گیا اور قرآن مجید میں یہ ہدایت نازل ہوئی کہ آپ اپنے قریب ترین عزیزوں کو سب سے پہلے خدا کے عذاب سے ڈرائیں تو آپ نے صبح سویرے کوہ صفا پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارا۔ یا صبا حاہ(ہائے صبح کی آفت)۔ عرب میں یہ صدا وہ شخص لگاتا تھا جو صبح کے جھٹ پٹے میں کسی دشمن کو اپنے قبیلے پر حملہ کرنے کے لئے آتے دیکھ لیتا تھا۔ حضورؐ کی یہ آواز سن کر لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ کون پکاررہا ہے۔ بتایا گیا کہ یہ محمد (ﷺ) کی آواز ہے۔ اس پر قریش کے تمام خاندانوں کے لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، جو خود آسکتا تھا وہ خود آیا، اور جو نہ آسکتا تھا اس نے اپنی طرف سے کسی کو بھیج دیا۔ جب سب جمع ہو گئے رتو آپؐ نے قریش کے ایک ایک خاندان کا کا نام لے لے کر پکارا، اے بنی ہاشم، اے بنی عبد المطلب، اے بنی فہر، اے بنی فلاں، اے بنی فلاں، اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے تو تم میری بات سچ مانو گے؟ لوگوں نے کہاں ہاں، ہمیں کبھی تم سے جھوٹ سننے کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا تو میں تمہیں خبر دار کرتا ہوں کہ آگے سخت عذاب آرہا ہے۔ اس پر قبل اس کے کہ کوئی اور بولتا، حضورؐ کے اپنے چچا ابو لہب نے کہا”تبالک الھذا جمعتنا؟ ”ستیا ناس ہو جائے تیرا، کیا اس لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا؟“ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس نے پتھر اٹھایا تا کہ رسول اللہ ﷺ پر کھینچ مارے(مسند احمد، بخاری، مسلم،ترمذی، ابن جریر وغیرہ)
اِبن زید کی روایت ہے کہ ابو لہب نے رسول اللہ ﷺ سے ایک روز پوچھا اگر میں تمہارے دین کو مان لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا جو اور سب ایمان لانے والوں کو ملے گا۔ اس نے کہا میرے لئے کوئی فضیلت نہیں ہے؟ حضورؐ نے فرمایا اور آپ کیا چاہتے ہیں؟ اس پر وہ بولا تبالھذا الدین تبا آن اٰکون وھوٗی لاء سواءً۔ ”ناس جائے اس دین کا جس میں میں اور یہ دوسرے لوگ برابر ہوں“(ابن جریر)
مکہ میں ابو لہب حضورؐ کا قریب ترین ہمسایہ تھا۔ دونوں کے گھر ایک دیوار بیچ واقع تھے۔ اس کے علاوہ حکم بن عاص(مروان کا باپ) عقبہ بن ابی معیط، عدی بن حمراء اور ابن الا صداء الہذلی بھی آپ کے ہمسائے تھے۔ یہ لوگ گھر میں بھی حضور ؐ کو چین نہیں لینے دیتے تھے۔ آپ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ اورپر سے بکری کا اوجھ آپ پر پھینک دیتے۔ کبھی صحن میں کھانا پک رہا ہوتا تو ہنڈیا پر غلاظت پھینک دیتے۔ حضورؐ باہر نکل کر ان لوگوں سے فرماتے”اے بنی عبد مناف،یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟“ ابو لہب کی بیوی ام جمیل (ابو سفیان کی بہن) نے تو یہ مستقل وتیرہ ہی اختیار کر رکھا تھا کہ راتوں کو آپ کے گھر کے در وازے کار دار جھاڑیاں لا کر ڈال دیتی، تا کہ صبح سویرے جب آپ یا آپ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے(بہقی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عسا کر، ابن ہشام)
نبوت سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں ابو لہب کے دو بیٹیوں عتبہ اور عتیبہ سے بیاہی ہوئی تھیں۔ نبوت کے بعد جب حضورؐ نے اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی تو اس شخص نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ میرے لئے تم سے ملنا حرام ہے اگر تم محمد(ﷺ) کی بیٹیوں کو طلاق نہ دے دو۔ چنانچہ دونوں نے طلاق دے دی۔ اور عتیبہ تو جہالت میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ ایک ایک روز حضورؐ کے سامنے آکر اس نے کہا کہ میں النجم اذا ھویٰ او رالذی دنا فتدلی کا انکار کرتا ہوں، اور یہ کہہ کر اس نے حضورؐ کی طرف تھوکا جو آپؐ پر نہیں پڑا۔ حضور ؐ نے فرمایا خدایا، اس پر اپنے کتوّں میں ایک کتّے کو مسلط کر دے۔ اس کے بعد عتیبہ اپنے باپ کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ دوران سفر میں ایک ایسی جگہ قافلے نے پڑاؤ کیا جہاں مقامی لوگوں نے بتایا راتوں کو درندے آتے ہیں۔ ابو لہب نے اپنے ساتھی اہل قریش سے کہا کہ میرے بیٹے کی حفاظت کا کچھ انتظام کرو، کیونکہ مجھے محمد(ﷺ) کی بد دعا کا خوف ہے۔ اس پر قافلے والوں نے عتیبہ کے گرد ہرطرف اپنے اونٹ بٹھا دیئے اور پڑ کر سو رہے۔ رات کو ایک شیر آیا اور اونٹوں کے حلقے میں سے گزر کر اس نے عیبہ کو پھاڑ کھایا(الا ستیعاب ل ابن عبد البر، الاصابہ لابن حجر، دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصفہانی، روض الانف اللسہیلی۔ روایات میں یہ اختلاف ہے کہ بعض راوی طلاق کے معاملے کو اعلان نبوت کے بعد کا وقوعہ بیان کرتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ تبت یدا ابی لھب کے نزول کے بعد پیش آیا تھا۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ یہ ابو لب کا لڑکا عتبہ تھا یا عتیبہ۔ لیکن یہ بات ثابت ہے کہ فتح مکہ کے بعد عتبہ نے اسلام قبول کر کے حضور ؐ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ یہ لڑکا عتیبہ تھا)۔
کا یہ حال تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ ے صاحبزادے حضرت قاسم کے بعد دوسرے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کا بھی انتقال ہوگیا تو یہ اپنے بھتیجے کے غم میں شریک ہونے کے بجائے خوشی خوشی دوڑا ہوا قریش کے سر داروں کے پاس پہنچا اور ان کو خبر دی کہ لو آج محمد(ﷺ) بے نام و نشان ہو گئے۔
رسول اللہ ﷺ جہاں جہاں بھی اسلام کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے جاتے، یہ آپ کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپؐ کی بات سننے سے روکتا۔ ربیعہؓ بن عباد الدایلی بیان کرتے ہیں کہ میں نو عمر تھا جب اپنے باپ کے ساتھ ذو لمجاز کے بازار میں گیا۔ وہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کہہ رہے تھے، ”لوگو، کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فلاح پاؤگے“ اور آپ کے پیچھے پیچھے ایک شخص کو کہتا جا رہا تھا کہ”یہ چھوٹا ہے،دین آبائی سے پھر گیا ہے۔“ میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے(مسجد احمد، بیہقی)۔ دوسری روایت انہی حضرت ربیعہ سے یہی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ایک ایک قبیلے کے پڑا پر جاتے اور فرماتے۔”اے بنی فلاح، میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تم میری تصدیق کرقو اور میرا ساتھ دو تا کہ میں وہ کام پورا کروں جس کے کے لئے اللہ نے مجھے بھیجا ہے“۔ آپ کے پیچھے پیچھے ایک اور شخص آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ”اے بنی فلاں، یہ تم لو لات اور عزیٰ سے پھیر کر اس بد عت اور گمراہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے جسے یہ لے کر آیا ہے۔ اس کی بات ہر گز نہ مانو اور اس کی پیروی نہ کرو“۔ میں نے اپنے باپ سے پوچھا یہ کون ہے۔ انہوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے(مسند احمد، طبرانی)۔ طارق بن عبد اللہ المحار بی کی روایت بھی اسی سے ملتی جلتی ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے ذو المجاز کے بازار میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں سے کہتے جاتے ہیں کہ ”لوگو، لا الہ الا اللہ کہو، فلاح پاؤ گے“ اور پیچھے ایک شخص ہے جو آپ کو پتھر مار رہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ ؐ کی ایڑیاں خون سے تر ہو گئی ہیں، اوروہ کہتا جاتا ہے کہ ”‘یہ جھوٹا ہے، اس کی بات نہ مانو“۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے(ترمذی)
نبوت کے ساتویں سال جب قریشی کے تمام خاندانوں نے بنی ہاشم او ربی المطلب کا معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کیا اور یہ دونوں خاندان رسول للہ ﷺ کی حمایت پر ثابت قدم رہتے ہوئے شعب ابی اطالب میں محصور ہو گئے تو تنہا یہی ابو طلب تھا جس نے اپنے خاندان کا ساتھ دینے کے بجائے کفار قریش کا ساتھ دیا۔ یہ مقاطعہ تین سال تک جاری رہا اور اس م دوران میں بنی ہاشم اور بنی المطلب پر فاسقوں کی نوبت آگئی۔ مگر ابو لہب کا حال یہ تھا کہ جب مکہ میں کوئی تجارتی قافلہ آتا اور شعب ابی اطالب کے محصورین میں سے کوئی خوراک کا سامان خریدنے کے لئے اس کے پاس جاتا تو یہ تاجروں سے پکار کر کہتا کہ ان سے اتنی قیمت مانگو کہ یہ خرید نہ سکیں، تمہیں جو خسارہ بھی ہوگا اسے میں پورا کروں گا۔ چنانچہ وہ بے تحاشا قیمت طلب کرے اور خریدار بیچارہ اپنے بھوک سے تڑپتے ہوئے بال بچوں کے پاس خالی ہاتھ پلٹ جاتا۔ پھر ابو لہب انہی تاجروں سے وہی چیزیں بازار کے بھاؤ خرید لیتا(ابن سعدو ابن ہشام)۔
یہ اس شخص کی حرکات تھیں جن کی بناء پر اس سورہ میں نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ خاص طور پر اس کی ضرورت ا سلئے تھی کہ مکہ سے باہر کے کے اہل عرب جو حج کے لئے آتے یامختلف مقامات پر لگنے والے بازاروں میں جمع ہوتے، ان کے سامنے جب رسول اللہ ﷺ کا اپنا چچا آپ کے پیچھے لگ کر آپ کی مخالفت کرتا، تو وہ عرب کی معروف روایات کے لحاظ سے یہ بات خلافِ توقع سمجھتے تھے کہ کوئی چچا بلاوجہ دوسروں کے سامنے خود اپنے بھتیجے کو برا بھلا کہے اور اسے پتھر مارے اوراس پر الزام تراشیاں کرے۔ اس وجہ سے وہ ابو لہب کی بات سے متاثر ہو کر رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شک میں پڑ جاتے۔ مگر جب یہ سورہ نازل ہوئی اور ابولہب نے غصے میں بپھر کر اول فول بکنا شروع کر دیا تو لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں اس شخص کا قول قابل اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہ اپنے بھتیجے کی دشمنی میں دیوانہ ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ نام لے کر جب آپ ؐ کے چچا کی مذمت کی گئی تو لوگوں کی یہ توقع ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ دین کے معاملہ میں کسی کا لحاظ کر کے کوئی مداہنت برت سکتے ہیں۔ جب علی الاعلان رسول ؐ کے اپنے چچا کی خبر لے ڈالی گئی تو لوگ سمجھ گئے کہ یہاں کسی لاگ لپیٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ غیر اپنا ہو سکتا ہے اگر ایمان لے آئے،اور اپنا غیر ہوجاتا ہے اگر کفر کرے۔ اس معاملہ میں فلاں ابنِ فلاں کوئی چیز نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068