حیدرآباد، 17 ستمبر۔
آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کا 33 واں نیشنل کنونشن طبّی کانگریس کی تلنگانہ شاخ اور آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس اکیڈمک وِنگ کے زیراہتمام نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مائیکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزس، یوسف گوڑہ میں انعقاد عمل میں آیا۔ قومی صدر پروفیسر مشتاق احمد نے صدارت کی۔ پروگرام کی نظامت بحسن و خوبی ڈاکٹر اطہر فاطمہ (نیشنل سکریٹری، آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس، اکیڈمک وِنگ) نے انجام دی۔ پروگرام کا آغاز حافظ و قاری محمد حارث خان کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ پروفیسر ایم اے فاروقی (نیشنل صدر، آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس، اکیڈمک وِنگ) نے تعارفی کلمات پیش کیے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈی این نارنگ نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس کنونشن میں جو سفارشات پیش ہوں گی ان پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے ممکنہ تعاون کی بھی پیشکش کی۔ آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کے قومی سکریٹری جنرل ڈاکٹر سیّد احمد خان نے تنظیم کی سرگرمیوں اور حصولیابی پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر محمد عبدالقدوس نے کہا کہ ہمیں سرکاری اسکیمات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہیے تاکہ ہم استفادہ کرسکیں۔ انہوں نے مزید یقین دہانی کرائی کہ میں اس سلسلے میں اپنی سطح پر ہر ممکن تعاون دوں گا۔ ڈاکٹر کے ناگیش (چیف سائنٹسٹ، نیٹ ہیڈ ICSIR اینڈ IICT گورنمنٹ آف انڈیا) نے کہا کہ طب یونانی میں بہت بڑی طاقت ہے جس کا مشاہدہ میں گزشتہ بیس سال سے کر رہا ہوں اور سی سی آریوایم سے وابستگی کی وجہ سے مجھے طب یونانی کے بارے میں معلومات ہوئی اور نالج میں اضافہ ہوا۔ کنونشن کے سائنٹفک سیشن بعنوان "Unani System & the Potentials, Teaching & Practices Update" میں ڈاکٹر منور حسین کاظمی (ڈائرکٹر انچارج، سی آر آئی یو ایم، حیدرآباد)، ڈاکٹر وسیع الرحمن (آئی آر ایس)، ڈاکٹر عطاء اللہ شریف(سابق ڈائرکٹر انچارج، سی آرآئی یو ایم، حیدرآباد) کے علاوہ پروفیسر سیّد فضل اللہ قادری، ڈاکٹر فضل احمد، ڈاکٹر سراج الحق، ڈاکٹر کریم النسا، ڈاکٹر محمد مرتضیٰ، ڈاکٹر سرفراز نواز، ڈاکٹر محمد منہاج الدین احمد، ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر پی محمد حسن احمد، سی سی آئی ایم ممبر، ڈاکٹر تسلیم فردوس، ڈاکٹر حکیم اللہ خان، ڈاکٹر عرفان، ڈاکٹر شاکر، ڈاکٹر ظفر، ڈاکٹر تراب علی، ڈاکٹر نور جہاں، ڈاکٹر ابوالفیض، ڈاکٹر محمد صالح، ڈاکٹر سعدیہ فاطمہ، ڈاکٹر ستیہ، ڈاکٹر غلام احمد اقبال، حکیم محمد حسام الدین طلعت، ڈاکٹر محمد جہانگیر، حکیم مرزا صفی اللہ بیگ، حکیم کے ایم سمیع الدین، حکیم مرزا ثناء اللہ بیگ و دیگر نے سیرحاصل بحث میں حصہ لیا۔ کنونشن میں طے پایا کہ طبی نظام تعلیم میں مناسب تبدیلیوں کے ساتھ طلبا کو تعلیم و تربیت فراہم کی جائے۔ پروفیسر فضل اللہ قادری کی اس تجویز کو بھی منظوری دی گئی جس میں کہا گیا کہ طلبا کو الگ الگ دوا پر کام کرنے اور پیپر پرزینٹیشن کا موقع دیا جائے نیز اُن پیپرز پرزینٹیشن کی بنیاد پر وائیوا میں کم از کم پچاس نمبرات بھی طے کیے جائیں تاکہ ان میں اعتماد بحال ہوسکے۔ حجامہ علاج و معالجہ کا بہت پرانا طریقہ علاج ہے، یہ چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے، ڈرگ لیس تھیراپی ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا اس پر پروٹوکال بنائے جائیں اور مزید تحقیق کی جائے۔ اس سلسلے میں کم از کم تین دن کا نیشنل ورک شاپ بھی منعقد کیا جائے اور دوسالہ ڈپلوما اِن اسپیشلائزیشن سرٹیفکیٹ کو منظوری دلانے کی کوشش کی جائے۔ کنونشن میں یہ بھی سفارش منظور کی گئی کہ طبی کالجوں کو سی سی آئی ایم کے مطابق طلبا کے کلاسز ہوں اور پچھتّر فیصد حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر محمد منہاج الدین خان کے شکریہ کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔