حامدی کاشمیری بہ حیثیت شاعر
- 13 Feb 2019
- حمیرہ حیات
- ادب
اردوادب کا ایک اہم نام حامدی کاشمیری ۲۷دسمبر۲۰۱۸دنیائے فانی کوالوداع کہہ گیا یہ نام ادبی دنیامیں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔حامدی کاشمیری نے اپنی تخلیقی خدمات سے اردو ادب میں بیش بہا اضافہ کیا۔وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔وہ بیک وقت شاعر،تنقید نگار،افسانہ نگار،ناول نگار،ڈراما نگار اور مضمون نگارکے طور پر ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔چونکہ زمانے نے ان کی ناقدانہ حیثیت کو ترجیح دی لہذا بطور نقاد ان کی شہرت بین الاقوامی سطح پر مسلم ہوئی اورہمیشہ رہے گی۔ان کا شمار تنقید کے چند اہم علمبرداروں شمس الرحمن فاروقی،وزیر آغا،گوپی چند نارنگ،مغنی تنسم،وارث علوی جیسے اہم ناقدین میں ہوتاہے۔
بلاشبہ حامد کاشمیری نے تنقید ی میدان جو اہم کارنامے انجام دیے وہ اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن در حقیقت وہ جتنے بڑے نقاد ہیں اتنے بڑے شاعر بھی تھے۔جب ان کی تخلیقی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شاعری کو انھوں نے اول ترجیح دی ہے اور اس لیے تنقید کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کے دامن کو بھی تھامے رکھا۔ اس میدان میں طبع آزمائی کر تے رہے اور ایک اعلی درجہ کی شاعری سے اردو دامن کو وسیع کیا ۔ شاعری ان کا پہلا شوق تھا لہذا بچپن سے ہی اردو شاعری کی طرف ان کا رجحان رہا۔ طالب علمی کے زمانے یعنی نویں جماعت میں اردو وفارسی کے استاد منشی محمد صادق نے ان کی شعری صلاحیت کو پہچاناتو ان کی شعری طبیعت کو حوصلہ ملا۔۱۹۴۸ میں میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد ایس۔پی کالج سری نگر میں داخلہ لیا ۔کالج کے ادبی ماحول نے ان کی شعری جہت کو قوت بخشی، اردو کے نامور شعرا و ادیب غالب،اقبال،پریم چند،حفیظ جالندھری،احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے کے مواقع فراہم ہوئے جس سے ان کے ادبی ذوق میں ضافہ ہوا لہذا اسی دوران کالج کے میگزین ’’پرتاپ‘’کے اردو سیکشن کے مدیربھی مقرر ہوئے اور یہاں سے ان کا تخلیقی سفر کا آغاز ہوا۔ اس ابتدائی تخلیقی سفر میں افسانے ، مضامین اور شاعری شامل ہے۔ان کا پہلا افسانہ ’ٹھوکر’ ۱۹۵۰ میں دہلی ’’شاعیں‘ میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ راہی،شب خون،راوی،شاعر اور آجکل میں مسلسل کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔شاعری میں بھی طبع آزمائی کی لہذاان کی پہلی غزل ۱۹۴۹ ہفت روزہ اخبار’وکیل ’سری نگر میں شائع ہوئی یہ ان کے پہلے شعری مجموعے ’عروس تمنا‘ میں شامل ہے۔غزل کا مطلع ہے۔
جو رہرو آشنائے جذب کامل ہونہیں سکتے
کبھی وہ فائزدامان منزل ہو نہیں سکتے
شاعری میں انھوں نے اردو کے معروف شاعر شہروز کاشمیری سے اصلاح لی اور ۱۹۵۰ میں ایف۔اے سال دوم کے طالب علمی کے زمانے میں ایک طرحی غز ل رسالہ ’شاعر‘کے مشاعرہ نمبرآگرہ سے شائع کی ۔جس کا مصرعہ طرح کچھ یوں تھا۔
ان اندھیروں سے بزم گیتی کو ایک دن روشنی ملے گی
اس غزل کے چند اشعارملاحظہ ہوں
خبر نہیں تھی کہ گلشن زندگی میں افسردگی ملے گی
نہال آشفتہ سر ملیں گے فسردہ ہر ایک کلی ملے گی
وہا ں میں داغ جگر سے اپنے چراغ و مشعل کا کام لونگا
رہ محبت میں چلتے چلتے جہاں مجھے تیرگی ملے گی
ان کی شاعری میں مشاہدات وخیالات کی تازگی اور بیان کا سادہ پن نظر آتا ہے لیکن چونکہ ان کو فارسی زبان پر بھی عروج حاصل تھا لہذا ابتدائی شاعری میں فارسی تراکیب و استعاروں کا ہجوم بھی موجودہے۔حامد کاشمیری جب ۱۹۵۴ میں ایس۔پی کالج میں انگریزی شعبہ کے لیکچرر مقرر ہوئے توآٹھ سال تک اسی عہد پر فائز رہے باوجود اس کے اردو زبان سے بھی جڑے رہے ۔چناچہ انگریزی ادب کے مطالعے نے ان کی تحریروں میں استدلال و توازن پیدا کیا۔یہ استدلال و توازن ان کی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔کالج میں چند برسوں میں ہی کئی نظمیں ،غزلیں اور قطعات لکھے جو بیک وقت مقامی اورغیر مقامی جرائد میں چھپے۔ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ۱۹۶۱میں ’عروس تمنا‘ کے نام سے منظر عام پر آیاجس میں ۱۹۵۰سے۱۹۶۱ تک کے سبھی نظمیں ،غزلیں،قطعات شامل ہیں۔اس کے بعد ان کے متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آئے مثلا نایافت(۱۹۷۶)،لاحرف(۱۹۸۴)،شاخ زعفران(۱۹۹۱)،وادی امکان،نارس اتھہ واس(کشمیری)شائع ہوئے۔
حامد کاشمیری کی ابتدائی شاعری پر نظر ڈالیں تو یہ محض روایتی شاعری معلوم ہوتی ہے۔اس شاعری ایک ایسے شخص کے خدوخال ابھرتے ہیں جو کشمیر انسل انسان ہے ۔جس کی شخصیت میں کشمیر رچ بس گیا ہے۔کشمیر کے خوبصورت مناظر،کشمیری زندگی کی قدریں،تبدیلیاں او رجدتیں،وادیاں ،برف،پہاڑ،آبشاروں کا سوز ساز،فطرت کشی ان کی ابتدائی شاعری کا محور ہیں۔دراصل کشمیر کی تہذیب و تمدن ہی ان کی ابتدائی شاعری کا حصہ ہے جس میں وہ نہایت سلیقے سے کشمیری زندگی اور فطرت کا کینوس اتارتے ہیں ۔ان نظموں میں شاخزاں،ماہ کامل سے،شالیمار کی ایک شام،گلمرگ،جشن بہار،ایک رات وغیرہ کشمیر کے دلکش نظاروں کی مصوری کرتی ہیں۔ان نظموں میں فطرت زندہ روح کی طرح ذی روح نظر آتی ہے۔مثلا
یہ جھلملاتی ہوئی چاند کی حسیں کرنیں
کنارے آً با الجھتی ہیں شاخشاروں میں
اور ان کا عکس حسین زیر آب کیا کہنا
کہ جیسے نغمہ لرزاں ہو نو بہاروں میں
(ماہ کامل سے)
یہ شعردیکھیں
ازل سے حامدی پردردہ بہار ہوں میں
خزاں سے کہہ دو ہے نسبت مجھے بہاروں سے
بنیادی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ شاعر کی زمینی مٹی سے محبت اور لگاؤ کی کشش ہے۔لیکن یہ کشش صرف خارجی سطح تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ داخلی سطح تک پہنچ کر کرب و آگہی کی صورت میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔کیونکہ کشمیر کے تہذیب وتمدن اور حسن وجمال کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گردوپیش کے حالات وحقیقتوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور اس پر نظر رکھتے ہیں۔زندگی کے نشیب وفراز،سماجی وسیاسی حقیقت،کائنات کے اسرارورموز اور موت جیسی برحق شہ سے جڑے اہم مسائل کو وہ محسوس کرتے ہیں ۔یہ ان کی شاعری کا نیا موڑ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ داخلیت پسندی کا وہ رجحان ہے جو ان کے شعری سفر میں نئے موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔
تشنگی آگ ہے یہ آگ میں پی لیتا ہوں
اب مرے آگے کبھی جام نہ آنے پائے
یا
ابھی نہ دے اے دوست مجھے دعوت عشرت
سلگ رہی ہے میرے دل میں آتش آلام
دراصل عروس تمنا میں داخلیت و خارجیت دونوں نمایاں طور پر موجود ہیں اور یہ مجموعہ دونوں کیفیات کے امتزاج سے لبریز ہے۔مجموعی طور پر ان کی ابتدائی شاعری کو روایت کے تسلسل کی شاعری قرار دیا جاسکتا ہے جہاں شاعر ذاتی و سماجی زندگی کی حقیقتوں سے گزرتے ہوئے اپنے تاثرات کو روایتی انداز میں نظم کرتا ہے ۔اس دور کی شاعری میں خاص طور پر تین موضوعات کشمیر،فطرت اور عشق دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حامد نے اردو ،کشمیری،فارسی اور انگریزی کلاسکی شاعری کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔خاص طور پر اردو میں میرتقی میر،مرزا غالب، اقبال اور کشمیری میں للہ دید،شیخ العالم،محمود گامی،رسول میر،شمس فقیر،انگریزی میں و رڈس ورتھ،کیٹس،کالرج،شیلے اور فارسی میں سعدی ،حافظ،بیدل جیسے شعرا پر ان کی گہری نظر تھی۔اس گہری ادبی واقفیت نے ان کی شاعری کو ایک وسیع پس منظر دیا۔فارسی کی متعددتراکیب و الفاظ کا استعمال کیا اور نئی نئی تراکیب وضع کیں یعنی روایت کے باوجود جدت پسندی کی طرف بھی مائل تھے۔مثلا نشید سازالفت،طوفان نور نغمہ،شام زمستان،چشم نیم شب،صد شعلہ بداماں وغیرہ تراکیب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ زبان والفاظ کی طرف زیادہ متوجہ تھے۔چونکہ ابتدائی شاعری پر جذباتی کیفیت زیادہ نمایاں ہے ا س لیے نظم کے بہ نسبت غزل پر زیادہ توجہ دی ہے۔ان کی نظموں کے اسلوب پر غزل کی نفاست کا اندازہ ہوتا ہے۔چناچہ ’تفاوت‘،’گلمرگ‘ غزل نما نظمیں ہیں۔ردیف وقافیہ کی پابندی بھی ان میں موجود ہے۔مثلا
سکون نواز صنوبر کی نرم چھاوں میں
سنور رہے ہیں حسیں خواب زار کیا کہیے
(گلمرگ)
چونکہ حامد کاشمیری اقبال کی شخصیت وفن سے بے حدمتاثر تھے لہذا اقبال کا شعری رنگ بھی ان کی شاعری میں موجود ہے ۔اقبال کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی ہے جس کے چند اشعار کچھ یوں ہیں۔
ابن آدم کو سکھائے تو نے آداب حیات
ہے تیرا قلب و نظر جلوہ گہ عزم ویقین
یا
تو نے صدیوں کے غلاموں کا لہو گرمایا
حریت کی تونے قندیل فروزاں کر دی
ان کا زمانہ ترقی پسند تحریک کا زمانہ تھا اور اس وقت کشمیر کے حالات سازگار نہ تھے۔مفلسی ،ظلم،زبان بندی،غلامی ،خوں ریزی،جہالت،طبقاتی ومعاشرتی تفادت،تنگی و لاچاری نے کشمیر کو اپنی زد میں لے رکھا تھا۔ان حالات سے حامد بھی متاثر ہوئے ان کی شاعری میں یہ تاثرات پیش پیش ہیں۔مثلا
سمجھ لیا میں نے مفہوم دور آزادی
یہی کہ حالت مفلس ہوئی خراب بہت
یا
ابھی تلخابہء غم پی کے پلتی ہے حیات اے دوست
ابھی ہم محفل عشرت میں شامل ہو نہیں سکتے
یہ کرب صر ف غزلوں میں نہیں بلکہ نظموں میں بھی موجود ہے۔ماہ کامل سے،نیا موڑ،سوز احساس،شعلہ احساس اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ان نظموں میں سماجی نابرابری کے مسائل خوبصورت پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں۔مثلا
بھڑک گیا جو شعلہ تو پھر بجھے گا نہیں
میں جانتا ہوں یہ ہرگز نہیں فنا انجام
یہ اٹھ کے دل سے ہر اس سمت پھیل جائے گا
جہاں اس کی تپش سے ہے لرزہ بر اندام
ابھی نہ دے مجھے اے دوست دعوت عشرت
سلگ رہی ہے میرے دل میں آتش آلام
حامد کاشمیری کی ابتدائی شاعری میں سب سے اہم بات ان کا ڈکشن ہے ۔اس دور میں ان کا لفظ و بیان کا حسن اپنے عروج پر ہے۔لب ولہجہ کی افرادیت ان کو ہمعصروں میں نمایاں کرتی ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس دور کی شاعری حقیقت کی عکاس ہونے کے باوجود بھی جذباتیت کی ترجمانی میں کامیاب نظر آتی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ ان کے دوسرے مجموعہ ’نایافت ‘کی شعری کیفیت پچھلے مجموعے سے بلکل منفرد اور جدا ہے۔اس مجموعہ کلام کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ یہاں حامد کاشمیری کا شعور ایک نئی کروٹ لے رہا ہے۔ایسی کروٹ جو عصری زندگی کے نئے مسائل کو نئے شعور سے آگاہ کرتی ہے۔وہ زندگی کی نئی راہوں میں آگے بڑھتے ہوئے پیچھے دیکھنا بھول گئے ہیں یا شاید وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔ایسالگتا ہے کہ یہ بصیرت ان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے لہذا فرماتے ہیں۔
میں منزل میں بھی آؑ گے بڑھ گیا ہوں جوش وحشت میں
خدا جانے کہاں چھوڑے ہیں اہل کارواں میں نے
تاریخ گواہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے اس کے ساتھ ادب میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔۱۹۵۵ کے بعد ترقی پسند تحریک زوال کی طرف بڑھنے لگتی ہے تو جدیدت اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔جس کے سبب تقریبا ۱۹۶۰ کے بعد اردو کے ادبی رجحانات میں کئی قسم کی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔فکرو فن کی اس تغیر پزیری سے حامد بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتے چناچہ اپنے مخصوص اسلوب و لہجہ قائم رکھتے ہوئے جدید شاعروں کی صنف میں منفر دمقام حاصل کر لیتے ہیں ۔مثلا
یوں تو خورشید دسترس میں ہے
گھور اندھیرا نفس نفس میں ہے
اس انداز کی شاعری ا س سے پہلے ان کے کلام میں نہیں ملتی ۔وہ اب حقیقی تجربات و مشاہدات سے دو چار ہیں۔یوں لگتا ہے کہ وہ پرانے تجربات کو زندہ پیکروں میں ڈھال کر نئے تجربات سے گزر رہے ہیں۔ایک ایسانفسیاتی پہلو ان کی شاعری میں نظر آتا ہے جس میں تاریخی ،سماجی،موروثی الجھنیں موجود ہیں۔عوامی زندگی کے مسائل،محرومیاں،دکھ درد ان کی شاعری کا حصہ بن جاتے ہیں جو ان کی بے چین روح کواظہار کے انوکھے مواقع فراہم کرتا ہے ۔مثلا
ان ظلمتوں سے ابھرے گی جیسے کوئی کرن
میں ساری ساری رات انھیں گھورتا رہا
یا
وہ خاک و خون میں تڑپتے تڑپتے ٹھنڈے ہوئے
میں کچھ نہ کر سکا کالے دائرے میں تھا
نایافت کی نظموں میں چنار ،ہاتھوں کا جنگل،حصار،بلاوا،مجسمہ،خواب،مراجعت وغیرہ تشدد، ناانصافی،تباہی و دکھ کے مناظر کو آنکھوں کے سامنے بکھیر دیتی ہیں۔
اجاڑ راہوں پہ دم روکے شب کے سناٹے
شکست خوردہ امیدوں کے واپسی لشکر
عمیق غاروں میں گرتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں
خموش رات ہے کوئی صدا نہیں آتی
(چنار)
ان شاعری میں جدیدیت کے ساتھ انسانی دوستی،امید،سچائی،ایمان ،یقین اور نیکی کی ترجمانی جیسی خوشگوار تبدیلیاں نمایاں ہوتی ہیں ۔مظہر امام ان کی شاعری ک حوالے سے یوں رقم طراز ہیں۔
’’اگر جموں کشمیر کی نئی نسل وہ نسل ہے جس نے جدید عصری حسیت اور نئے مزاج کو
سب سے پہلے قبول کیا،تو پھر یہ نئی نسل حامد کاشمیری سے شروع ہوتی ہے۔‘‘
(تعمیر۱۹۸۳،جموں کشمیر ،اردو نمبر)
حامدی کا معاصر اردو شاعری کا مطالعہ جدیدیت سے ان کے ذہنی رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان شاعری میں ہمیں انسانیت کی خستہ حالی ،بے چارگی اور بے توقیری کا نوحہ بھی ملتاہے۔بیشتر اشعار میں انسانیت کے زوال ،بیگانگی،بے بسی کے بارے میں اپنے غم کا اظہار کیا خوب کرتے ہیں۔یہ اشعار دیکھیں۔
مرے ضبط کو آزمانے لگے ہیں
سلاخوں سے آنکھیں بجھانے لگے ہیں
یا
شب کوش تھے وہ انکی رسائی کہاں نہ تھی
نیزوں پہ اختران ضیا بار لے گئے
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی شاعری محض تاریکی ،موت اورخوف تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی ،روشنی اور امید بھی موجودہے۔مشکل حالات سے سامنا کرنے کی تلقین ان کی شاعری کا حصہ ہے۔وہ بہتر مستقبل اور بہتر صورت حال کی توقع کرتے ہوئے بے امید ویاس اور زندگی کی تلخ کامیوں سے ہارے ہوئے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔مثلا
یہ اور بات گھرے ہیں حصار ظلمت میں
ابھی نظر میں طلوع سحر کا عالم ہے
یا
توڑ دینا انھیں کیا مشکل ہے
یہ تو خود ساختہ زنجیریں ہیں
ان کی شاعری میں بعض جگہ داستانی فضا بھی موجود ہے۔یہ ان کی شخصیت کا ہی حصہ ہے اس لیے ان میں تخلیقی عمل جلوہ گر ہوتا ہے۔خاص طور سے ان کی غزلوں کا انداز داستانی ہے ۔جہاں شاعر اپنے غم میں زندگی کی الجھنوں میں اس قدر گم ہے کہ وہ خیالی سہارے کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور اس تلاش میں اسے کوئی انسان نہیں ملتا بلکہ صرف خیالی تصور ملتا ہے جو اس کا ہمسایہ دوست بن جاتا ہے اور اسی تصور سے اپنے رنج و الم دریافت کر کے آنسو بہاتا ہے۔مثلا
وہ لوگ مجھ سے گلے مل کے دیر تک روئے
بدن پر بال تھے ان کے کوئی لباس نہ تھا
یا
کہاں سے آئے تھے احوال سن کے خون روئے
قریب جا کے چھوا سب کے سب خیالی تھے
جدید ٹکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک دھاگے میں پرو دیا ہے ۔روز مرہ کی زندگی غیر معمولی انقلاب پیدا کرنے والی تبدیلیوں کے فروغ نے انسان کو محرک بنا دیا ہے۔حامد بھی اس تغیر سے بے خبر نہیں تھے ۔وہ اپنے گردوپیش ہونے والی تبدیلیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔اس کا اظہار وہ شاعری میں جابجا کرتے نظر آتے ہیں۔
جانے کیا پوچھ لے پھر مجھ سے بوڑھا بالک
اب اسے تھپکیاں دے دے کر سلایا جائے
یا
کون تاریک عذابوں میں نہ تھا
حرف رخشندہ کتابوں میں نہ تھا
حامد کاشمیری نے کشمیر کی خوبصورت فطرت کشی کے علاوہ کشمیر کے مسائل کو بھی مد نظر انداز رکھا ۔ان کی شاعری میں کشمیر کے حالات مثلا غریبی،مظلومیت ،ویرانی،خون ریزی کا المیہ کا بیان شدت کے ساتھ نظر آتاہے۔کبھی ان کو یاد کرکے کرب کی شدت میں آہ وزاری کرتے ہیں تو کبھی شکوہ اور افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔
بس اتنا یاد ہے شب کو چلی تھی تیز ہوا
سحر ہوئی توکوئی نہ تھا مکانوں میں
یا
خو ن روتے ہوئے سائے ہیں سر راہ گزر
کس کے خوابوں کی یہ بستی جلا دی کس نے
حامد کاشمیری کی شاعری میں ان کی شخصیت کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔وہ مفکر،صوفی،انقلابی،قنوطی،راہب سبھی کچھ ہیں۔وہ زندگی کے نشیب وفراز سے لاتعلق نہیں ہیں۔جو اپنے جذبات کو بھی عیاں کرتے ہیں کبھی ابہام کے پردے میں چھپا دینے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔وہ دوسرے کو بھی اپنے مشاہداہ وتجربات سے آشنا کرتے ہیں اور اس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔وہ انسان پر ہو رہے ظلم و ستم دیکھ کر ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور ان کے سینے میں ایک نرم اور مہرباں دل ہے جو دردمندی سے بھرا ہے۔مثلا
جلتے صحرا نہیں دیکھے جاتے
ان کو میں آنکھوں کا پانی دے دوں
یا
تو گھر سے نکلے تو آسان کروں تیرا سفر
سلگتے راہ گزر پر سحاب ہو جاؤں
بلراج کومل لکھتے ہیں۔
’’مجھے حیرت اور مسرت کا احساس ہوا کہ حامد کاشمیری نے شخصی تجربات کے اظہار کے لیے
روایتی غزل کی زبان یکسررد کرکے جس لسانی ڈھانچے کی تشکیل کی ہے وہ بلا شبہ ان کے محسوسات
سے پوری طرح ہم آہنگ ہے‘‘
(حامد کاشمیری،حیات اور شاعری از مصرہ مریم،ص۲۱۴)
ان کے کلام کی ایک اور خاصیت ڈرامائی کیفیت بھی ہے ۔وہ اپنے تجربات و احساسات شاعری میں کچھ اس طرز سے پیش کرتے ہیں کہ وہ ڈرامہ یا کہانی کی مانندلگتا ہے۔ان نظموں کی طرح غزلوں میں بھی ایک مسلسل خیال ربط ملتا ہے۔ان کے اشعار پڑھتے ہوئے واقعہ،مکالمہ،کردارسامنے آجاتے ہیں۔مثلا
کراتا ہے مجھے چپ کون ہے یہ
میں کس کی موت پر محو بکاہوں
یا
رو کو نہ میرا راستہ سر سبز جنگلو
میں دست پا شکستہ ہوں پیچھے غنیم ہے
مختصر یہ کہ حامد کاشمیری اردو شعرا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کے کئی پہلو ہیں لیکن میں نے مختصر اور خاص شعری گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔میری فہم کے مطابق وہ جتنے کامیاب تنقید نگار ہیں اتنے ہی کامیاب اور دل کو چھو جانے والے شاعر بھی ہیں۔ ان شاعری ایک پیغام دیتی ہے۔ ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے ایک ایسی دنیا ہمارے ذہن میں پیدا ہوتی ہے جو خوبصورت ،پرکشش،اجنبی،اور خوفناک ہے۔درحقیقت حامد کاشمیری کی شاعری ان کی شخصیت کا عکاس ہے ۔وہ زندگی کے نشیب و فراز کو کچھ اس طرح پیش کر دیتے ہیں کہ قاری محو ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔لہذامیں نے اپنے محدود علم کے مطابق ان کی شاعری کے چند ہی پہلووں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔بلاشبہ ان کی شاعری غور وفکر کی دعوت دیتی ہے اور یہ آنے وقت میں بھی اتنی ہی کار آمد ثابت ہوگی جتنی اب ہے۔
ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی