Masarrat
Masarrat Urdu

سابق ممبرپارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمیؒ سے مولاناغیاث الدین دھام پوری کاایک یادگارانٹرویو

Thumb

 

۲۰۱۳ ؁میں جامعہ عربیہ ہتھورا کی مجلس شوریٰ کے موقع پر ناظم جامعہ مولانا حبیب احمد کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے ممبر پارلیمنٹ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر جمعیۃ علماء ہند کے سابق ناظم عمومی ،کانگریس کے ٹکٹ پر کشن گنج صوبہ بہا ر سے منتخب ہو کر آئے مولانا اسرارالحق قاسمی مرحوم جو اپنے مسحور کن بیان اور فکر انگیز مضامین کیلئے علمی ادبی و قلمی حلقوں میں اپنی ایک منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتے تھے یہ انٹرویوا س وقت ملک کے متعدد روزناموں میں شائع ہوا ،اورمولاناؒ نے بھی پڑھکربندہ کودعاؤں سے نوازا تھاآج وہ ہمارے درمیان میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں انکی باتیں اوران کی وہ یادگارملاقا ت راقم الحرو ف کبھی نہ بھلاسکے گا،اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند فرمائے اوران کی شایان شان مقام عطاء فرمائے (آمین ) قارئین کے افادہ کے پیش نظر ذیل میں ان سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی نظر کیا جارہا ہے ۔

سوال:آپ نے تعلیم کہاں حاصل کی اور آپ کی تعلیم کتنی ہے؟
جواب : میں نے دارالعلوم دیوبندمیں میزان سے لیکر بخاری شریف تک کی تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ سے ایم اے کیاہے ۔
سوال: مغربی میڈیا کے ساتھ ملکی میڈیا بھی یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ اسلام ایک خوفناک مذہب ہے اور کچھ ہمارے اردو اخبارات بھی اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں اسلام کا صحیح پیغام جائے اس لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟
جواب:اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی حالت یہ ہیکہ تقاضوں کے مطابق کبھی کام نہیں کرتے آج دیکھئے کہ پوری دنیا کی ۸۰؍ فیصد تجارت پر یہودیوں کا قبضہ ہے ،اسی لئے انہوں نے اپنا ایک یوریا بنا لیاہے اس وجہ سے آج پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں ہمارے پاس ۶۵ ؍ملک ہیں، ہم اپنی کوئی کرنسی نہیں بنا سکے ،عالمی میڈیا یہودیوں کے قبضہ میں ہے، آپ اور ہم کتنا شور مچائیں وہی خبر ہیڈ لائن بنے گی جو وہ چاہیں گے، ہمارے چاہنے سے نہیں وہ جس وقت چاہے جب چاہے جہاں چاہے جس کی چاہے پگڑی اچھال دے کم سے کم ہم لوگوں کو میڈیا میں داخل تو ہونا چاہئے آج سے چار سال قبل زی نیوز میں لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں ایک مباحثہ ہوا جس میں ہم پانچ آدمی مدعو تھے پروفیسر امتیاز ،پروفیسر زویاجواہر لول نہرو یونیورسٹی ،شاہد مہدی سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ ، وشو ہندو پریشد کے صدر اشوک سنگھل اوراسرارالحق ۔پروفیسر زویا نے کہا کہ یہ مولوی لوگ عورتوں کو تعلیم میں نہیں آنے دیتے شاہد مہد ی نے گول مول بات کی اور جب اشوک سنگھل کا نمبر آیا تو اس نے کہا کہ آپ لوگ لڑکیو ں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جب تک یہ مولوی ہندوستان میں رہیں گے تو ملک میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر اشوک سنگھل نے جیب سے ایک لمبا چوڑا پرچہ نکالا جس میں قرآن کریم کی ۶۲ ؍آیتیں مع انگریزی ترجمہ کے لکھی تھی، خاص طور سے سورۃ توبہ کی آیت ’فا قتلوھم حیث وجدتموھم‘ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے کہا دیکھو تمہارا قرآن اس آیت میں کہتاہے کہ کافروں کو جہاں پاؤ قتل کردو چونکہ یہ مذاکرہ زی ٹی وی لائیو ٹیلی کاسٹ کر رہا تھا اور پوری دنیا اس کو دیکھ رہی تھی ،لہٰذا میں نے اینکر سے فوراًکہا کہ تمہارا سبجیکٹ تو گیا پیچھے، اشوک سنگھل کے اعتراض کا جواب جب تک میں نہ دیدوں پروگرام آگے نہیں بڑھے گا ،چونکہ میں اسلام کا نمائندہ بیٹھا ہوں اگر میں وہاں خاموش رہتاتواس کا اثر یہ تھا کہ جو کچھ اشوک سنگھل نے کہا ہے وہ صحیح ہے اینکر بولا یہ تو بحث سے خارج ہے میں نے کہا میں اس کا جواب دونگا چاہے بحث آگے ہو یا نہ ہو، میں نے اشوک سنگھل سے کہا کہ آپ عربی جانتے ہیں بولے نہیں جب آپ عربی زبان سے قطعاًواقف نہیںٖ تو کم از کم کسی عربی داں سے پہلے رابطہ کرنا چاہئے تھا آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اسکا غلط ترجمہ کریں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ فا قتلو ھم میں ھم ضمیر کا مرجع کافر ہیں یا کوئی اور ،اور اس آیت کا تعلق اس زمانے سے ہے جب نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ یکطرفہ ظلم ہو رہا تھا اور یہ ظلم صرف اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے سے تھا ،صرف یہ جرم تھا آپ کا، تو قرآن نے یہ بات ظالموں کے بارے میں کہی ہے کافروں کے بارے میں نہیں کوئی شخص الیکشن کے زمانے میں اگر بیلٹ بوکس لیکر بھاگے تو اسے دیکھتے ہی شوٹ اینڈرائٹ کرنے کا حکم ہے ،یہ حکم ہندوستانی دستور کے مطابق انگریزی نہیں ہے فائرنگ کو عربی میں اطلاق النار کہتے ہیں اس زمانے میں تلوار تھی تو قتل کا حکم دیا گیا آج بندوق ہے تو اطلاق النا ر ہے تو معلوم ہوا کہ آج بھی عدالتیں خلاف قتل کرنے کا حکم دیتی ہیں تو آپ نے اس آیت کا ترجمہ کیسے نکال لیاآپ پوری دنیا میں مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، آپ جیسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ ہو نا چاہئے ۔
سوال:ذرائع ابلاغ عصر نو کا طاقتور ہتھیا ر ہے اس سے دیگر اقوام بہت فائدہ حاصل کررہی ہے مگر مسلمان اسمیں دلچسپی نہیں لیتے جس لی وجہ سے ان کو غیر محسوس طریقہ سے نقصان پہنچایا جا رہا ہے اس سلسلہ میں مسلمان کیاکریں؟
جوب: ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے لوگ جرنل ازم میں حصہ لیں اور ہم نے قومی سطح پر آہستہ آہستہ یہ کام شروع کیا ہے دلی میں ۴۰۰مسلمان لڑکے ہماری کوششو ں سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میٖڈیا میں چلے گئے ہیں، اب وہاں کا ایڈیٹر جو کچھ غلط کرے گا تو یہ لڑکے اس کو پڑھ کر سمجھیں گے، کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ،ہم نے ان لڑکوں کی ٹریننگ کا یہ انتظام بھی کیا ہے کہ وہ اسلامی فقہ اور اسلامی قوانین سیکھیں ان سب کو چیزوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے علما ء کے علاوہ عام مسلمانوں کو بھی میڈیا میں آنا چاہئے۔
سوال:انگلش میڈیم اور ہندی میڈیم اسکولوں پر عموماًدین سے بیزار لوگوں کا غلبہ ہے یا پھر اکثریت غیر مسلم اسکولوں کی ہے مسلمان بچوں کے ایمان و عقائد کو ہم اس ماحول میں میں کیسے محفوظ رکھیں اس کی کیا سبیل ہے ؟
جواب:۴ فیصد بچے مدرسوں میں ۲۵ فیصد اسکولوں میں اور بقیہ کھیل کود میں ہیں تو ۲۵ اور ۴ ملاکر ۵۶ ہو گئے تو ۶۴ فیصد بچوں کے ایمان و عقائد تعلیم و تربیت کا ہما رے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے اگر ہم اپنے گاؤں اور شہر کی مسجدوں کو اسکا مرکز بنالیں اور ہفتہ میں ایک دن یا روزانہ ایک گھنٹہ اس کی کلاس لیں تو بہت فائدہ ہوگا عموماًاسکول جانے والے بچوں کے ماں باپ کسی مولوی کو ٹیوشن پر لگا دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری دینی ذمہ داری پور ی ہوگئی بلکہ دین کی جو بنیادی تعلیم ہے توحید و رسالت ،فکرآخرت ،حرام و حلال وغیرہ اس کو تو سمجھنا ہی پڑیگا اگر مسلمان مساجد کو اس کا طریقہ بنا لیں تو بہت عمدہ طریقہ ہے ۔
سوال: جو بچے اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی دینی تعلیم کا وہاں کوئی بندوبست نہیں تو ان کو دینی تعلیم کس طرح دی جائے ؟
جواب : جب اسکولوں میں چھٹیاں ہو تی ہیں تو ان چھٹیوں میں ہم پندرہ بیس دن کا سمر کیمپ لگا سکتے ہیں اور اس میں ہم با الترتیب ایک بار توحید سمجھا سکتے ہیں ایک بار رسالت سمجھا سکتے ہیں نماز کے قیام و قعود سجدہ وغیرہ درست کرا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
سوال :مسلما نوں کے اپنے معیاری اسکول ہوں ان میں عصری و مذہبی دونوں تعلیم ہوں تو ا س کیلئے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے آپ کے ذہن میں اس مسئلہ کے حل کہ کیا صورت ہے ؟
جواب: آج کل مسلمان شادی بیاہ میں فضول خرچی میں مبتلا ہیں وہ مسلمانوں پر احسان نہ کریں البتہ انو سمنٹ کرکے بلا سود ایک لاکھ روپیہ یا پانچ ہزار دس ہزار وغیرہ دس سال کیلئے جمع کردیں اس کے بعد اپنا ایک اسکول کھولیں جو اس معیار کا ہو اس کے اندر دینیات کی تعلیم بھی ہو ،بھٹکل والوں نے اچھا نصاب مرتب کیا ہے جو اردو عربی دونوں میں ہے اور انگریزی بھی اس نصاب کی ادبی ہے ہم تمام اسکول نہیں کھول سکتے تو جتنے کھول سکتے ہیں اتنے کھولیں اور جو ہم نہیں کھول سکتے تو ان کے بچوں کو الگ سے تعلیم دینے کا بندوبست کریں ۔
سوال : امر بالمعروف والنہی عن المنکر پر علما ء کو کس ترتیب سے کام کرناچاہئے ؟
جواب: جو علما ء تقریر کرتے ہیں ان کے ذہن میں پہلے سے ہوتا ہے اسی کو آکر وہاں انڈیل دیتے ہیں، یہاں کی بیماری کے مطابق وہ تقریر تھی یا نہیں دوسرے یہ کہ ہم ذمہ داران جلسہ سے کہیں کہ جلسہ تو رات میں ہوگا آپ عصر سے مغرب تک مجلس مذاکرہ کرلیں اس شہر کے ذمہ داروں اور اور علما ء میں بھی سو پچاس علما ء کو اس مجلس مذاکرہ میں شرکت کی دعوت دیں تیسرے یہ کہ پہلے نوٹس میں یہ باتیں ڈالئے کہ اس شہر یا اس محلہ میں کون سی برائیاں پنپ رہی ہیں، یا کون سی اچھائیاں پھیل رہی ہیں اسی اچھائی یا برائی سے متعلق تقریر ہو نی چاہئے تاکہ اچھے کام کی حوصلہ افزائی ہو اور برائی پر نکیر ہو ۔
سوال :ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی بڑا اخبار نہیں ہے اور مسلمانوں کا انگریزی اخبار تو ایک خواب ہی ہے اور آج کل اردو کا اخبار روز نامہ انقلاب تو ایک فرقہ کی ہی ترجمانی کر رہاہے تو کیا اس کیلئے بڑے سرمایہ اور فنڈ کی ضرورت ہے ؟
جواب: روزنامہ انقلاب تو ’دینک جاگرن ‘کا اخبار ہے مئی ۲۰۱۰میں جاگرن گروپ نے اسے خرید لیا شمالی ہندوستان کے دس شہروں سے یہ شائع ہو رہا ہے جس کے بعد یہ بھی نیشنل نیوز پیپر کے درجہ میں آگیا ہے تو یہ اخبار تو آپ کا رہا نہیں، بہر حال ہمیں اپنا اخبار نکالنے کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا پڑیگا ،اخبار کو کمر شیل کرنا پڑیگا ،ہم اس کو اپنے ہاتھ میں نہ رکھ کر دوسروں کے ہاتھوں میں دے دیں ،وہ دنیاداری کے حساب سے اسکو چلائیں گے ہم اگر اسے اپنے پاکیزہ ہاتھوں میں لیں گے، تو وہ چلے گا نہیں، ہما را اخبار الجمعیۃ ہمیشہ گھاٹے میں چلتا تھا، ایسا کوئی اشتہار چھاپ نہیں سکتے جس میں عورتوں کی عریاں تصاویر ہوں چونکہ اشتہار اور ایڈ سے ہی اخبار چلتا ہے، اسی سے اخبار کی آمدنی ہو تی ہے اس کو اسی حساب سے لیکر چلنا ہو گا اگرہم کرنا چاہیں گے تو کیوں نہ ہوگا لیکن ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم نہ کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں ، اور ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے لگتے ہیں، جمعیۃ علماء نے ایک انگریزی اخبار نکالنے کی بات کی تھی، نو آدمیوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی مولانا اسعد مدنی صاحبؒ کا حصہ لوگوں نے جمع کر دیا ،اور آٹھ ممبروں نے جمع نہیں کیا وہ پیسہ آج تک بینک میں جمع ہے ،اور پورے ہندوستان میں ہمارے ہی لوگوں نے جمعیۃ کو بدنام کر دیا کہ جمعیۃ والے پیسہ کھا گئے ۔
سوال : کچھ فرقوں نے اپنے اپنے نیوز چینل چلا رکھے ہیں جیسے پیس چینل ‘کیو ٹیوی‘اور قادیانی چینل جو کسی گنتی میں نہیں ہے انھوں نے بھی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے اپنی ویب سائٹ کھول رکھی ہے کیا ہمارا کوئی اپنا کوئی نیوفز چینل نہیں ہونا چاہئے ؟
جواب :ڈاکٹر ذاکر نائک جیسے لوگوں نے تو اپنے اپنے چینل کے ذریعہ اپنی بات دنیا کو پہنچادی ہم جواب دینے کیلئے پریشان ہیں چینل مفید تو ہے مگر اس کیلئے کھڑا ہو نا پڑیگا یہ ممکن ہے کہ اگر ممکن نہیں تو پھر یہ لوگوں نے کیسے کیا ،یہ بات کہ ہم سے ہوگا نہیں اگر ہوگا نہیں تو ان کا کیسے ہو گیا ؟
سوال مسلمانوں کیلئے کوئی پیغام ؟
جواب :اپنے نظام تعلیم میں عصری علو م کے ساتھ پوری توجہ اسلامی تربیت و ذہن سازی پر مرکوز رکھنی چاہئے ملک کے مختلف علاقوں سے ذہین و با صلاحیت مسلمان کو جرنلزم کا کوس کرانا اور انہیں انگریزی اور مقامی زبانوں کے اخبارات وغیرہ کی طرف توجہ کرانا وقت کی شدید ضرورت ہے اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کو پوری طرح قرآن و حدیث پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی بھی ضرورت ہے ۔
 صدرمجلس احراراسلام مدرسہ اسلامیہ عربیہ محلہ بندوقچیان دھامپور 9451470034

Ads