مشاورت نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کہا کہ 2008 میں مالیگاؤں میں ہونے والے بم دھماکے ایک ہولناک دہشت گردانہ واقعہ تھا، جس میں 6 بے گناہ ہ شہری جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس واردات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سالوں کی تفتیش کے بعد چند ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی تھی، جن کا تعلق بعض شدت پسند ہندوتوا تنظیموں سے بتایا گیا تھا۔ جو اس نوعیت کی کارروائی میں ایک اہم پیش رفت تھی۔لیکن 17 سال طویل عدالتی کارروائی کے بعد تمام ملزمین کو باعزت بری کر دینا انصاف کے تقاضوں کی صریح پامالی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ افراد مجرم نہیں تھے تو پھر ان بے گناہوں کا قاتل کون تھا؟ اس فیصلے نے نہ صرف مظلوموں کو انصاف سے محروم کیا ہے بلکہ انصاف کے نظام پر عوام کے اعتماد کو بھی کمزور کیا ہے، خاص طور پر جب ملزم اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے اس پر زور دیا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ مذہب یا نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر بلاتفریق مذہب و عقائد کیا جانا چاہیے۔ یکطرفہ جانچ، سیاسی اثرات اور انصاف میں تاخیر یا انکار یہ سب ہماری جمہوریت اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ہم مالیگاؤں دھماکوں کے متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت،قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں اور اس معاملے کی شفاف جانچ و سماعت کو یقینی بنائیں۔انصاف میں تاخیر انصاف کا انکار ہے جبکہ انصاف سے دستبرداری ہندوستان کے آئین کی روح کے لیے خطرہ ہے۔