حضرت مجد د الف ثا نی کی والدہ بہت نیک صا لح خا تون تھی ،نماز،روزہ ،کی بے حد پا بند تھی۔دھلی اور کا نپور کے درمیان ضلع اٹاوہ کے قریب ایک قصبہ سکندرہ ہے وہاں ایک بزر گ رہتے تھے آ پ ان کی صا حبزادی تھیں۔ان کے بطن سے سات صا حبزادے پیدا ہوئے۔اوّل شیخ شاہؒ،جنھوں نے حضرت مخدومؒسے ظاہری باطنی تعلیم پائی تھی۔دوسرے شیخ محمودؒصاحب،جو حضرت باقی باللہ کے مُرید تھے۔تیسرے جن کا نام اور کیفیت معلوم نہ ہوسکی۔چوتھے حضرت شیخ احمدامام ربّانی حضرت مجدّد الف ثانی سرہندیؒ۔پانچویں شیخ غلام محمّد صاحبؒ۔چھٹے شیخ مودود صاحبؒ۔ساتویں آپکا نام اور حالات معلوم نہ ہوسکے،یہ سب کے سب عالم و کامل تھے۔
آپکی پیدائش ۹۷۱ھ مطابق ۱۵۶۳ء ۱۴؍شوال المکرم جمعہ کی رات میں سرہندی میں ہوئی،آپکے وجود کے نور سے تمام جہان اور اہل جہان منور ہوگئے۔آپکا نامِ مبارک شیخ احمدسرہندی ہے۔ کنیت ابولبرکات،لقب بدرالدّین،خطاب و منصب قیوم زماں خزینۃ الرحمۃ اور مجدّد الف ثانی ہیں۔مذہب ومسلک حنفی ہے۔طریقہ آپکا مجدّدیہ نقشبندیہ قادریہ سہروردیہ اور چشتیہ بھی ہے۔
اکبر بادشاہ کاخواب:
جس رات آپ پیدا ہوئے اُس رات اکبر بادشاہ نے خواب وحشت ناک دیکھا۔اس نے خواب میں دیکھا کہ شمال سے ایک تیز وتند آندھی اُٹھی۔دیکھتے ہی دیکھتےاُس نے اکبر بادشاہ کو تخت سمیت اپنی گرفت میں لے لیا۔بادشاہ نے بڑے ہاتھ پاؤں مارےلیکن کوئی بس نہ چلا۔آندھی نے بادشاہ کو تخت سمیت زمین پر پٹخ دیا۔اکبر نے خواب سے بیدار ہوتے ہی خواب کی تعبیر بتانے والوں کو طلب کیااور ان سے اپنا خواب بیان کرکے تعبیر طلب کی۔ان میں سے ایک نے ڈرتے ڈرتے تعبیر بیان کی کہ،’’جہاں پناہ!آج کسی ایسے بچّے کی پیدائش ہوئی ہےجو بڑا ہوکرآپ کے آئین سلطنت کو متزلزل کردے گا۔یہ سن کر بادشاہ بہت ڈرا۔لیکن یہ کام بھی بہت دشوار تھا کہ پورے ہندوستان کے اُن بچّوں کا پتہ چلایا جائے جو اُس رات پیدا ہوئے تھے۔
دوسرا واقعہ:
حضرت مجدّد الف ثانیؒکی پیدائش کے دنوں میں بادشاہِ ہند کا تخت اُلٹ گیا۔پھر لوگوں نے اُسے درست کیاپھر سرنگوں ہوگیا،غرض یہ کہ کئی مرتبہ ایسا ہی ہوا۔اسی اثناء میں بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ شمال ( یعنی سرزمین پنجاب ہند)کی طرف سے یک لخت تیزوتند ہوا آئی اور بادشاہ کو مع تخت اُٹھا کرزمین پر دے پٹکا۔کہتے ہیں کہ اِس خواب سے بادشاہ اِتنا ڈرا کہ اُس کی سات روز تک زبان بند رہی۔
ارکانِ سلطنت کی پریشانی:
لہٰذا ارکانِ سلطنت یہ دیکھ کر بہت حیران و پریشان ہوئےاور سب نے جمع ہوکر مشورہ کیا کہ بادشاہ کو ان دنوں کیا ہو گیا ہےاور انکو کونسا مرض لاحق ہوگیا ہے کہ اس حال میں گرفتار ہیں؟اس تقصیر کی کوئی تدبیر کرنی چاہیئے۔چنانچہ وہ تمام حاذق اور بڑے بڑے ماہر طبیبوں کو اکٹھا کرکے بادشاہ کے پاس لے گئے۔جب بادشاہ نے ساتویں دن گفتگو کی تو کہنے لگا کہ مجھے کوئی مرض اور بیماری نہیں ہےاور پھر اس نے اپنا خواب بیان کیا۔بادشاہ کا خواب سنتے ہی تمام اہل عقل تاڑ گئے اور سمجھ گئے۔انہیں اس بات کا کامل اور پختہ یقین ہوگیا کہ بادشاہ پر کوئی آسمانی بلا نازل ہوگی جواس کے باطل اور غلط رسم وآئین کو درہم برہم کردے گی۔خان اعظم اور سیّد صدر جہاں جو اس سے پہلے خواب دیکھ چکے تھے۔ان سب خبروں کی وجہ سے انھوں نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ جہاں پناہ،حضرت مجدّد الف ثانیؒپیدا ہونگے۔یہ سن کر بادشاہ پر رعب چھا گیا اور تفکرات میں کھو گیا۔
آپ کی والدہ فرماتی ہیں کہ میرے فرزند شیخ احمدؒکی پیدائش کےبعد مجھے بے ہوشی سی ہوگئی،تو کیا دیکھتی ہوں کہ تمام اولیاء امت ہمارے گھر میں آئے ہیں اور مجھے مبارکباد دے رہےہیں اور ایک شخص کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ اور آئندہ تمام اولیاء کے سارے کمالات اپنے فضل وکرم سے شیخ احمدؒ کو عطاء فرما دئیے۔آپ کے والد حضرت مخدوم فرماتے ہیں کہ میں اپنے فرزند شیخ احمدؒ کی پیدائش کے دن کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت محمّد ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں۔تمام انبیاء اور آسمانی فرشتے آپ کے ساتھ ہیں اور رسول اللہﷺ کو مبارکباد دے رہے ہیں۔آپﷺ نے بڑی خوشی سے بچّے کو اپنی گود میں لے کر اُنکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی اور فرمایاکہ یہ میرا فرزند ہے،میرے تمام کمالات کا وارث،میرا قائم مقام اور میری امت کے دنیاوی اور آخروی کارخانے کو سنبھالے گا۔
آپ ؒ کا بچپن:
آپ عام بچّوں کی طرح سے کبھی روئے چِلّائے نہ تھے،نہ کبھی ننگے ہوتے۔اگر اتفاقاً کسی موقع پر آپ کا بدن ننگا ہوگیاتو فوراً ڈھک لیتے۔ہمیشہ خوش رہتے۔آپؒ ہر دلعزیز تھے،جو کوئی بھی آپ کو دیکھتا محبّت سے بے اختیار ہوجاتا۔ایک مرتبہ آپ شیرخوارگی کے زمانے میں بیمار ہوگئے،اتفاق سے شاہ کمال کیتھلیؒ تشریف لے آئے۔آپ کے والد آپ کو شاہ کمال کی خدمت میں لے آئے کہ بچّے کے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مرض سے شفاء عطاء فرمائے۔جب شاہ کمالؒ نے بچّے کو دیکھا تو تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے۔آپکے والد کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کس کی تعظیم کی ہے۔شاہ کمالؒ نے فرمایا ہم نے اس بچے کی تعظیم کی ہے جو تمام اولیائے امت سے افضل ہے۔عنقریب یہ بچّہ آفتاب بن کر چمکے گا۔اللہ تعالیٰ اس بچّے کی عمر دراز کرے۔شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا جو خرقہ اُنکے پاس امانت تھا وہ اپنے پوتے شاہ سکندر کو دیکر فرمایا کہ یہ حضرت مجدّد الف ثانیؒ کو دے دینا۔
سرھند کے آباد ہونے کےبارے میں:
سلطان فیروز شاہ تغلق جو ہندوستان کا بادشاہ ہواتھا،اپنے لشکر کیساتھ لاہور سے دہلی جا رہا تھا۔جب یہ لشکر سہرند نامی مقام پر پہنچا تو لوگوں نے یہاں سے بہت جلدی گذرجانا چاہاکیونکہ سہرند کا مطلب ہے شیروں کاجنگل۔ایسے خطرناک جنگل میں کون ٹھہر سکتا ہے۔یہ لشکر سہرند سے ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا تو پتہ چلا کہ لشکر کے ایک بزرگ شیروں کے جنگل میں ہی رہ گئے۔اس بات کا علم بادشاہ کو ہوا تو اس نے ایک فوجی دستہ کو حکم دیا کہ بزرگ کو لایا جائے۔لہٰذا جب یہ دستہ ان بزرگ کے پاس پہنچا اور کہا کہ حضرت ہم آپ کو شاہی حکم کے تحت لینے کیلئے آئے ہیں تو ان بزرگ نے جانے سے انکار کردیا۔انھوں نے پھر دوبارہ عرض کی کہ حضرت ہم آپ کو لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے کیونکہ یہ بادشاہ کا حکم ہے۔بالآخر وہ بزرگ انکے ساتھ بادشاہ کے پاس پہنچے تو بادشاہ نے ان سے جنگل میں رکنے کی وجہ دریافت کی۔بزرگ صاحب نے جواب دیا،ائے بادشاہ!ہمیں سہرند میں یہ القا ہوا ہے کہ اس جگہ ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جو وحیدالامّت ہوگا۔ اور دین اسلام کو نئی زندگی بخشے گا۔اس لئے سہرند سے شیروں کو نکال کر اسے انسانی بستی بستی میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔بادشاہ نے مسکراکرکہا،’’آپ اکیلے ہی اس خطرناک جگہ کو آباد کرسکیں گے۔؟‘‘ تو بزرگ نے کہا،ان شاء اللہ۔بادشاہ انکی ہمت دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا حضرت آپ ہمارے ساتھ رہیں اور اطمینان رکھیں۔اگر اللہ کو یہی منظور ہے کہ سہرند آباد ہو،اور اس کا محبوب بندہ پیدا ہو تو وہ اس جگہ کو ہمارے ذریعے سے انسانی بستی میں تبدیل فرمادے گا۔بزرگ بادشاہ کی اس بات سے مطمئن ہوکر انکے ساتھ دہلی چلے گئے۔چند روز کے بعد ہی بادشاہ کے پیرومرشدسیّد جلال الدّین بخاری مخدوم جہانیاں شاہ ؒ دہلی تشریف لائے۔بادشاہ نے ادب واحترام سے جھک کر ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا،’’ حضرت کی تشریف آوری کاکس زبان سے شکریہ ادا کروں،کیا گنہگار مقصد معلوم کرسکتاہے؟‘‘ مخدوم جہانیاں شاہؒ نے جواب دیا،ہم چاہتے ہیں کہ دہلی اور اوٗچہ کے درمیان ایک نیا شہر بسایا جائے۔تاکہ اوٗچہ کے آس پاس کے لوگ مالئے کی رقم اس نئے شہر میں جمع کریں اور تکلیف سے بچ جائیں۔بادشاہ کو سہرند اور ان بزرگ کا واقعہ یاد آگیا اور ہنستے ہوئے کہا کہ حضرت کے حکم کی ضروری اور فوری تعمیل کی جائے گی۔
سرھند قلعے کی تعمیر:
بادشاہ کے وزیر،مقرب خاص خواجہ فتح اللہ صاحب کو دوہزار سوارکے ساتھ اس کام کیلئے روانہ کیا گیا۔خواجہ فتح اللہ صاحب معماروں اور مزدوروں کو ساتھ لے کر سہرند پہنچےاورجنگل کی صفائی شروع کرادی۔اُن میں بہت سے آدمیوں کو فوجیوں نے بیگار میں پکڑ کر کام میں لگا دیا۔سب سے پہلا کام قلعے کی تعمیر کا تھا۔ہزاروں آدمی قلعے کی دیوار کے کام میں لگ گئےدیوار بننی شروع ہوئی مگر جب دوسرے دن وہاں جاکر دیکھا تو دیوار گِری ہوئی تھی۔
ہر روز دیوار گِرتی رہی:
دوسرے دن پھر تمام دن بھر دیوار بناتے ،مگر اگلے دن پھر اُسی طرح سے دیوار گری ہوئی پاتے۔دوچار روز تک تو لوگ یہی سمجھتے رہے کہ اتفاقیہ گر جاتی ہے۔مگر جب ہفتہ بھر تک یہی ہوتا رہا تو بنانے والوں کے کان کھڑے ہوگئے۔یہ معاملہ دیکھ کر خواجہ فتح اللہ صاحبؒ نے اس نئی آفت کی بادشاہ کو اطلاع دی۔
حضرت امام رفیع الدّین صاحبؒ کی سہرند میں آمد:
بادشاہ نے فتح اللہ صاحبؒ کا تحریر نامہ مخدوم جہانیاں شاہؒ کی خدمت میں پیش کردیا اور عرض کیا کہ حضرت اس مشکل کا حل ہم گنہگاروں کے بس کا نہیں ہے۔اسےبھی آپ ہی دور فرمائیں۔حضرت مخدومؒ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور مراقبے میں چلے گئے۔ذرادیر بعد آنکھیں کھولیں اور اپنے خلیفہ امام تماز حضرت رفیع الدّین ؒ صاحب کو طلب کیا۔جب یہ آگئے توانھیں حکم دیا کہ رفیع الدّین ! اپنے بھائی خواجہ فتح اللہ کے پاس سہرند تم جاؤاور اپنی نگرانی میں قلعے کی تعمیر کا کام انجام دو۔
امام رفیع الدّین صاحبؒ کو بھی اس مشکل کا پتہ لگ گیا تھا۔حضرت مخدوم جہانیاں شاہ نے روانہ ہونے کے وقت ایک اینٹ دی اور فرمایا اس اینٹ کو بنیاد میں رکھ دینا،یہ اینٹ تمہاری مشکلات کو دور کردیگی۔اور وہ صاحب بھی سامنے آجائیں گے جو دیوار کی تعمیر میںآڑے آرہے ہیں۔امام اسی وقت سہرند روانہ ہوگئے۔وہاں پہنچ کر اینٹ قلعے کی بنیاد میں رکھ کر تعمیر کا کام شروع کردیا۔وہ پہلی رات بڑی بے ہی چینی کی تھی۔خواجہ فتح اللہ اور امام رفیع الدّین صاحب کو نتیجے کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔دوسرے دن صبح کو دیکھا تو دیوار جوں کی توں صحیح سلامت کھڑی تھی۔امام صاحبؒ کام کا جائزہ لیتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں بیگار کے لوگ کام میں لگے ہوئے تھے۔انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص انہیں خوفناک نظروں سے گھور رہا ہے۔امام رفیع الدّین صاحب نے اس شخص کے
کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا حضرت آپ یہاں کہاں؟ ادھر میرے پاس آجائیے۔
حضرت بو علی شاہ قلندرؒ کا غصّہ:
اُس شخص نے غصّے سے جواب دیا کہ جلال الدّین مخدوم ؒ سے کہہ دینا کہ ہم نے تیرا خیال کیا ہےورنہ تیری ایک اینٹ کی حیثیت ہی کیا تھی۔ہم اُسے بھی اُکھاڑ پھینکتے۔امام صاحب نے بڑی عاجزی سےکہا کہ حضرت آپ اتنے ناراض کیوں ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ کیا انصاف ہے،تیرے بھائی فتح اللہ کے آدمی ہمیں بھی بیگار میں پکڑ لائے۔لہٰذا ہم نے بھی سوچا کہ چلو بیگار میں کام لیتے ہو تو لیتے رہو۔کب تک لوگے؟ بو علی شاہ قلندرؒ نے فرمایا کہ رفیع الدّین تو وہ صحیح آدمی ہے جو اس کام پر مقرر کیا گیا ہے۔شاید تجھے معلوم نہیں کہ وہ شخص جس کیلئے شہر بنایا جارہا ہے وہ تیری ہی نسل سے پیدا ہوگا۔لہٰذا اب ہم خود بھی اس قلعہ اور شہر کی تعمیر میں تیرا ہاتھ بٹائیں گے۔اس کے بعد بو علی شاہ قلندرؒ کی نگرانی میںقلعے اور شہر کی تعمیر کا کام ہونے لگا جوپہلے سہرندیعنی شیروں کا جنگل تھا،ایک مدّت گذرنے کے بعد سرہند ہوگیا۔امام رفیع الدّین صاحبؒ سرہند میں آباد ہوگئےاور پھر انکی چھٹی نسل میں شیخ عبدالاحدؒ کے گھر میں ایک بچّہ پیدا ہوا جنھیں حضرت ربّانی حضرت مجدّد الف ثانیؒ کہتے ہیں ۔جنھوں نے اکبر بادشاہ کے نئے مذہب دین الٰہی کو ختم فرمایا۔
(ماخوذ:سوانح حیات امام ربّانی حضرت مجدّد الف ثانیؒ،حصّہ اوّل،دورِاکبری)
9209663689