مفکر ِملت علامہ سید ظہیر زیدی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر عرضِ کلام سے پہلے مرزا غالبؔ کا یہ شعر بجا طور پر سرخئی عنوان قرار دیا جاسکتا ہے:
ہوں گرمئی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشنِ ناآفریدہ ہوں
دنیا کے مفکرین، ماہرین اور صاحب فکر ونظر اور دانشوروں کے افکار ونظریات کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں بلکہ انسانی مسائل کا حل ان کے نظریے میں موجود ہونے کی صورت میںپوری انسانیت کا سرمایہ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے آج تک فلسفی، تعلیمی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی و تربیتی اور فکری نظریات سے بشریت استفادہ کرتی آئی ہے، جس کی واضح مثال ان مفکرین کی کتابوں و کارناموں میں موجود ہوتی ہے اور جس سے ان کے معاصرین کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والی نسلیں بھی مستقل استفادہ کرتی رہتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ایسےمفکرین چاہے وہ کسی عہد کے ہوںیا کسی بھی ملک، مسلک یاخطے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے افکار پوری انسانیت کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اسلامی فکر کی نمائندگی کرنے والے صاحبانِ نظر کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ گیر ہوتا ہے اور ان کی نگاہ انسانی بہبود وفلاح اور نجات وکامیابی پر مرکوز رہتی ہے۔ انہی اہم شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت علامہ سید ظہیر زیدیؒ کی تھی ، جنہوں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اسلامی دنیا کے مفکرین اور ان کی انقلابی افکار اور تحریکوں کا بغور مطالعہ کیا۔خصوصاً برصغیر کی اسلامی تحریکوں اور اسلام دشمن استعماری طاقتوں کے خلاف مفکرینِ امت اور قائدینِ ملت کی جدو جہد کی تاریخ سے کماحقہ آگاہی حاصل کی۔یہی وجہ تھی کہ آپ نے برصغیر کی آزادی میں مسلمانوں کے کردار کا بے حدقریب سے جائزہ لیا ۔ مصلحِ قوم سرسید احمد خانؒ ، شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ اور برِّ صغیر کی دیگر اہم اسلامی شخصیات کے کردار وعمل کے سانچے میں خود کو بڑی کامیابی کے ساتھ ڈھالنے کی کوشش کی اور ان کے ہی نقشِ قدم سے وابستگی کے ساتھ نئی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں وکوشاں ہوگئے۔
علامہ سید ظہیر زیدیؒ کی پوری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے ملتِ مسلمہ کے مفاد کے حصول اور ہر شعبہ حیات میں مسلمانوں کی ترقی کے لیےکیا اقدامات ضروری ہیں اور کیا کرنا ناگزیر ہے اس کا احساس آج سے تقریباً سات دہائی پہلے کرلیا تھا۔ میں ایسا اس لیے عرض کررہا ہوں کہ آج جن وسائل اور چیزوں کو بروئے کار لاکر تعلیم وتعلم کے بلا امتیاز فروغ کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں علامہ سید ظہیر زیدیؒ نے پچھلی صدی کے چھٹی اور ساتویںدہائی میںان کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرلیا تھا۔ اپنی ذات کے لئے ہر ایک انسان سوچتا ہے اور اپنے اعمال، اخلاق اور احوال کی اصلاح کے لئے بھی مختلف تدابیر اختیار کرتا ہے لیکن ایسی سعادت مند روحیں بہت کم ہوتی ہیں جن کو قدرت ملت کے لیے کام کرنے کا موقع عنایت کرتی ہے۔ یہ سعادت بھی اللہ جل شانہ صرف اپنےان نیکوکار اور مخلص بندوں کو عطاکرتا ہے جن میں اپنی ذات سے زیادہ افرادِ ملت کے لیے ایثار اور ترجیحی طور پر خدمات انجام دینے کاوافر جذبہ موجود ہوتا ہے۔ علامہ سید ظہیر زیدیؒ بھی فریفتہ ملت واقع ہوئے تھے اور ملت کی عمومی اصلاح اور فلاح کا بےپایاں درد رکھتے تھے۔ تقسیمِ ملک کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی اپنے نقطہ عروج پر تھی اور اس کا بنیادی سبب مسلمانوں کی بہتر آبادی کا پاکستان ہجرت کرجانا تھا۔ ملک کی ناگہانی تقسیم اور ہندوستان میں اپنے بکھرے ہوئے وجود کی شیرازہ بندی کے لیے کوشاں مسلمانوں کی رہبری کوئی آسان کام نہیں تھا۔ علامہ زیدیؒ نے اس جانب بڑی شد ومد سے توجہ کی اور یہ بیڑہ اٹھایا کہ ملت کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرکے اسے مقامِ بلند تک رسا کرنا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہیں ہے کہ وہ اپنی اس کارواں ساز مہم میں کامیاب وکامران رہے۔
علی گڑھ دو حصوں میں منقسم ہے ۔ ایک حصہ پر یاد گار سرسید علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی واقع ہے تو دوسرا حصہ علی گڑھ کا شہر ہے جو علی گڑھ پلیہ کے اس طرف آباد ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی علم کی شمعِ فروزاں کی صورت میں پوری دنیا کو فکرونظر کی روشنی کی بے بہا سوغات سے نوازتی ہے اور ایک عالم یہاں اپنی علمی پیاس کی سیرابی کے لیے کھینچا چلاآتا ہے۔ دلچسپ سے زیادہ افوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک زمانہ علی گڑھ پر ایسا بھی گذرا ہے جب علی گڑھ شہر کی آبادی تعلیم سے دور تھی اور لوگ تعلیم کی طرف اپنے بچوں کو بھیجنا خسارہ کا باعث سمجھتے تھے۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ علی گڑھ شہر کے لوگ اپنے بچوں کو سات آٹھ سال کی عمر کے بعد تالا سازی کی صنعت کا ایندھن بنادیتے تھے اور ان کا مستقبل چند سکوں کی نذر ہوجاتا تھا۔ علامہ سید ظہیر نے ان گارجین حضرات سے بات کی اور ان کو تعلیم کے فوائد سمجھائے لیکن وہ دن میں اپنے بچوں کو کسی بھی صورت میں تعلیم کی اجازت کے لیے راضی نہ ہوئے پھر انھوں نے ان سے کہا کہ چلو ایسا کرتے ہیں کہ تہمارا بھی نقصان نہ ہو اور بچوں کی تعلیم بھی ہوجائے لہذا نھوں نے ۱۹۶۰ ء کی دہائی میں مدرسہ شبینہ (Night School) کا قیام کیا ۔ اس زمانے میں دور دور تک اس نوع کی کسی سوچ کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ اللہ تعالی نے علامہ زیدیؒ کی رہبری فرمائی اور یہ نکتہ انھیں سجھایا ۔ انھوں نے ہم نوا افراد کی ایک نمایاں ٹیم بنائی جن میں علی گڑھ کے مشہور ترین اطباء میں سے سے ایک ڈاکٹر غیور احمد(جو طبیب حاذق کے علاوہ ایک بے حد فعال سماجی خدمت گار بھی تھے ) اور دوسرے علی گڑھ شہر کے سرائے حکیم کے ماہر ونباض طبیب ڈاکٹر حنیف بطورِ خاص علامہ زیدیؒ کے دست وبازو بنے اور ان کی مجموعی کوششوں سے رات کو چلنے والا یہ اسکول رفتہ رفتہ ترقی کے زینے طے کرتا رہا اور وہ دن بھی آیا کہ یہ مدرسہ شبینہ لطفیہ ہائی اسکول میں بدل گیا ۔
مفکرِ ملت علامہ سید ظہیر زیدی ؒ کی بے لوثی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں کبھی بھی اپنےبچوں کو شامل نہیں کیا اور ان کو ملت کا اثاثہ و سرمایہ قرار دیا ۔ جب تک ان کی صحت بحال رہی اور قوائے عمل مضمحل نہ ہوئے خود ہی اپنے رفقائے کار کے ساتھ لطفیہ ہائی اسکول کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں اور اپنی وفات سے چھ سات برس پہلے علی گڑھ کے مشہور صنعت کار ظفرعالم صاحب کو اس کا مینیجنگ ڈائرکٹر بناکر سبکدوشی اختیار کی ۔ سید ذاہد حسین ـ ، جو خود بھی ایک اسکول اور کوچنگ سنٹر چلاتے ہیںاور تالہ ساز کمپنی کے مالک مشہور صنعت کار ظفر عالم اور رکنِ اسمبلی علامہ زیدیؒ کے شاگردان رشید میں ہیں ، ان کے ساتھ علمی وتعلیمی سرگرمیوں میں کافی پیش پیش رہے تھے۔ ان کے علاوہ ایک بہت ہی معتبر نام پروفیسر اختر الواسع صاحب کا ہے جو گذشتہ صدی کی ساتویںدہائی میں علی گڑھ یونیورسیٹی میں کافی فعال وسرگرم تھے، علامہ زیدی ؒ کے عزیز ترین شاگردوں میں سے ہیں اور ایک ماہر تعلیم اور اکیڈمییشین کی حیثیت سے نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر الواسع جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر اور مولانا آزاد یونیورسیٹی کے وائس چانسلر بھی رہے اور ملّی دانشور کی حیثیت سے ہاتھو ں ہاتھ لیے
جاتے ہیں۔
مفکرِ ملت علامہ سید ظہیر زیدیؒ ملّی معاملات میں سر سید احمد خان کو اپنا آئڈیل مانتے تھے اور ان کے ہی نشانِ قدم پر چلتے ہوئے ملت کی ترقی اور فلاح کے لیے اپنی عمرِ عزیز کا ایک ایک لمحہ صرف کرنے کو اپنی سعادت تصور کرتے تھے۔آپؒ ملت کے مسائل سے حقیقت پسندانہ واقفیت رکھتے تھے اور اس امر کو بخوبی سمجھےتھے کہ اس کی فلاح کا نسخہ تعلیم میں ہی پوشیدہ ہے ۔لہذا آپؒ نے تعلیم کے محدود یا یک رخی تصور کو یکسر رد کرتے ہوئے اس زمانے میں مدارسِ اسلامیہ کے طلباء کو علی گڑھ لے آئے اور یہ پیغام دیا کہ ملت کے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت ہر لحاظ سے چست ودرسست اور زمانے کے مطالبات سے ہم آہنگی کے ساتھ ہونی چاہیے۔مفکرِ ملت علامہ زیدیؒ کےاس موقف کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے لفظوں میں یوں بیان کرسکتے ہیں:
زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک۔ دلیل کم نظری قصئہ قدیم وجدید
چمن میں تربیتِ غنچہ ہو نہیں سکتی ۔ نہیں ہے قطرئہ شبنم اگر شریک نسیم
مدارس کے طلباء کو علی گڑھ لانا اس زمانے میں ایک نئی چیز تھی ۔ بہتوں کے لیے یہ ایک بدعت سئیہ سے کم نہیں تھی۔ مگر مفکرِ ملت علامہ زیدی ؒ اس سے قطعی نہیں گھبرائے اورعلی گڑھ طبیہ کالج میںان کا داخلہ کروایا۔ اس زمانے میں داخلہ کسی امتحان کے بغیر براہِ راست ہوجاتا تھا ۔ علاوہ ازیں شعبہ عربی اور شعبئہ اسلامیات میں بھی مدارس ِ اسلامیہ کے فارغین کو داخلہ لینے کی ترغیب دی ۔ ویسے کچھ یارانِ طریقت نے اس خوشگوار ابتدا کی شد ومد سے مخالفت کی لیکن علامہ زیدیؒ نے یونیورسیٹی انتظامیہ سے بات کرکے اس روکاوٹ کو دور کروادیا اور پہلے دو داخلے ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم اور محمد جمیل صاحبان کے ہوئے ۔ ان میں سے ایک کا شعبہ عربی میں تو دوسرے صاحب کا فارسی میں داخلہ ہوا۔ اللہ نے ان دو نوں کو ان کی آئندہ زندگی بہت کامیاب کیا۔ ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم جامعہ ہمدرد سے منسلک ہوئے اور شعبہ دینیات کے ڈین مقرر ہوئے ۔ محمد جمیل صاحب بھی سیٹی اسکول میں استاد کی حیثیت سے بحال ہوئے اور اب تو وہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ مفکرِ ملت علامہ سید ظہیر زیدیؒ سے ان کی محبت آج بھی اٹوٹ ہے ۔ اب تو مدارس کے طلباء کے یونیورسیٹی میں داخلے کے لیے برج کورس موجود ہے جس کی تکمیل کے بعد وہ یونیورسیٹی میں داخلے کے اہل ہوجاتے ہیں۔ مگر جس زمانے میں مفکرِ ملت ؒ نے اس کی پہل کی تھی وہ ایک نئی اور نادر چیز تھی۔ سر سید احمدخان کےمشن سے وابستگی اور ان کی ملّی فکر سے سیرابی کا یہ عالم رہا ہے کہ جب کبھی بھی تعلیمِ ملت کی کوئی سبیل پیدا ہوئی تو آپ ؒ بلا ایک لمحہ برباد کیے اس جانب لپکے اور اسے عملی جامہ پہنادیا۔ آپؒ کے دور کے بہت کم لوگ ہی اب موجود ہیں اور جو معدودے چند حضرات موجود بھی ہیں تو وہ بھی بقول ِ غالبؔ’’آفتابِ سرکوہ ’’ اور چراغِ دمِ سحر‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مکتب سر سید کی اس باعزم وباعمل شخصیت کا تعارف آج کی نسل سے کروایا جائےتاکہ نئی پود کوعلی گڑھ کے اس سرسید سے جس کو زمانہ علامہ سید ظہیر زیدیؒ کے نام سے جانتی تھی ، آشنائی حاصل ہو اور وہ آپؒ کی زندگی سےفکرو عمل کی دولتِ بے بہا حاصل کرسکے۔
اللہ تعالی نے مفکرِ ملت علامہ سید ظہیر زیدیؒ کو متعدد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپؒ ایک جید عالمِ دین، فقیہ ، اسلامی تاریخ داں ، شاعر و نثر نگار، عربی اردو فارسی پر یکساں قدرت رکھنے والے قلم کار گویا یہ ساری خوبیاں بیک وقت آپؒ کی بابرکت ذات میں مجتمع تھیں اور آپؒ نے انھیں بروئے کار لاکر متعدد تصانیف بھی قوم وملت کے لیے چھوڑ ا ہے۔ علی گڑھ کالج میں اسلامی تاریخ کے ایک استاد کی حیثیت سے آپ نے اسلامی سانچے پر طلباء کی ذہن سازی اور کردار سازی کا فریضہ انجام دیا۔ متعدد مدارس کے نصاب مرتب کیے اور اسے جدید تقاضوں کے مطابق بنانےپر کافی زور دیا۔مقامِ شکر ہے کہ ان کے فرزند ڈاکٹر سید جاوید زیدی صاحب اپنے والد علامہ سید ظہیر زیدی ؒ کی دانشورانہ روایات اور علمی مشن کے سچے امین ہیں اور قطر یوینورسیٹی میں ایک پروفیسر اور اقوامِ متحدہ کے نمائندہ کی حیثیت سے اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود اپنے والد کی سچی جانشینی کا حق ادا کرتے ہیں۔ دینی اقدار کی پاسداری کے ساتھ مسلمانوںکی معاشرتی اور تعلیمی بہتری کے لیے وسیع پیمانے پر کام کرتے ہیں اور قطر یونیورسیٹی میں بہت سے ہندوستانی مقیم طلباء کی علمی رہبری کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔ پروفسیر زیدی صاحب کی ذات میں علامہ سید ظہیر زیدی کا عکس بے حد نمایاں ہے ۔ میںپروفسیر صاحب کا بہت مشکور ہوں کہ مجھے انھوں نے علامہ سید ظہیر زیدی ؒ کے حوالے سے بہت سی مفید معلومات فراہم کیں۔ حالانکہ مجھے ان کے بارے میں خطیب الہند مولانا عبید اللہ خان اعظمی اور دیگر علمی ودینی شخصیات کے توسط سے بہت کچھ معلوم تھا لیکن ڈاکٹر سیدجاوید زیدی صاحب کی فراہم کردہ معلومات نے بہت سے نئے گوشوں سے متعارف کرایا۔
اس ہفتے علامہ سید ظہیر زیدی ؒکی برسی ہے اور ساتھ ہی ملک وبیرونِ ملک مصلحِ قوم وملت سرسید احمدخان ؒ کے یومِ پیدائش کا جشنِ سالانہ بھی چل رہا ہے اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک مضمون مفکرِ ملت علامہ سید ظہیر زیدیؒ ، جو صرف ایک سچے جانشین سرسید ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں علی گڑھ کے سرسید کی حیثیت رکھتے تھے، ان پر ایک تعارفی تحریر لکھی جائے ۔
مضمون کے اختتام پر مفکر ِ ملت علامہ سید ظہیر زیدی نے جن اداروں کو قائم کیا یا جن کی سرپرستی فرمائی ان کی اس فہرست کی دعائے خیر کی درخواست کے ساتھ درج کی جاتی ہے:
۱۔ لطفیہ ہائی اسکول ، اوپر کورٹ ، علی گڑھ ۔ بانی
۲۔ مدرسہ عربیہ بالائے قلعہ ، علی گڑھ ۔ بانی
۳۔ ہائی اسکول سرائے رحمٰن علی گڑھ ۔ بانی
۴۔ مدرسہ مسجد نور منزل ، دودھ پور ، علی گڑھ ۔ بانی
۵۔ مدرسہ فیضانِ مصطفی احمد نگر زہرہ باغ، علی گڑھ ۔ سرپرست تاحیات
۶۔ مسجد نور منزل ، دودھ پور ، علی گڑھ ۔ متولی و سرپرست تاوفات
۷۔ مرکزِ تعلیمات ِ اسلامی ، علی گڑھ ۔ مرشدِ اعلیٰ
۸۔ M.S.O ۔ سرپرست