پوتن کی چار دسمبر سے شروع ہونے والی دو روزہ ہندوستان آمد سے قبل، پیسکوف نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ایک پریس بریفنگ میں کہا ہمارا ماننا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ بین الاقوامی تعاون ہے۔ بدقسمتی سے، اس وقت یورپی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اس امکان کو محدود کرتے ہیں۔ہندوستان کے ساتھ مل کر ہم دہشت گردی کے خلاف تعاون جاری رکھیں گے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر ہندوستان دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کے خلاف دوبارہ کوئی کارروائی کرے تو کیا روس اس کی حمایت کرے گا، تو پیسکوف نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ “دہشت گردی کا کوئی بھی روپ ہو، کوئی بھی ماخذ ہو، ہمارا ملک اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ہم نے خود دہشت گردی کو جھیلا ہے اور اس درد کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہندوستان نے بھی متعدد بار اس خطرے کا سامنا کیا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک اہم ملک ہے اور اس کے ساتھ مذاکرات ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت کے ساتھ اس خطے میں حالات پر بات کی جانی چاہیے۔افغانستان کے ساتھ ہمارے اپنے تعلقات اور اپنا نقطۂ نظر موجود ہے۔۔ یہ خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ سابق سوویت ریاستوں کے پڑوس میں واقع ہے۔ تاجکستان کا ہمسایہ ہےاور وہاں ہمارے سرحدی محافظ اب بھی تعینات ہیں۔ اسی لیے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اور اس حوالے سے ہمیں ہندوستان کے مؤقف اور حساسیت کا مکمل ادراک ہے۔
بر صغیر میں امن قائم کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ روس دنیا کے ہر خطے میں امن چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں بین الاقوامی تجارتی قوانین کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اورہندوستان و روس کو مل کر عالمی امن کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن چار دسمبر کوہندوستان-روس سالانہ سربراہی اجلاس میں حصہ لینے کے لیے دو روزہ دورے پر ہندوستان آئیں گے۔
