واشنگٹن میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوران امریکی صدر کے بیان کو کچھ حلقوں میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے ہندوستان کی ایندھن کے تحفظ کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے کہا، ’’مجھے یہ پسند نہیں تھا کہ ہندوستان (روس سے) تیل خرید رہا ہے اور انہوں نے (مودی) نے آج مجھے یقین دلایا کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے۔ یہ ایک بڑی روک ہے۔‘‘
مسٹر ٹرمپ کے اس دعوے پر فوری طور پر مختلف حلقوں سے متضاد ردعمل سامنے آئے۔
نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ نے واضح کیا کہ ہندوستان اپنی توانائی پالیسی قومی مفادات کی بنیاد پر طے کرنے کا آزادانہ حق رکھتا ہے۔ وزارت کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستان تیل اور گیس کا ایک بڑا درآمد کنندہ ملک ہے اور غیر مستحکم عالمی توانائی منڈی میں ہندوستانی صارفین کے مفادات کا تحفظ ہمیشہ اولین ترجیح رہا ہے۔
وزارت نے زور دے کر کہا کہ ملک کی تیل درآمدکرنے کی پالیسی دو اہم اہداف پر مبنی ہے، توانائی کی قیمتوں میں استحکام اور سپلائی کا تحفظ۔۔ان اہداف کے حصول کے لیے ہندوستان درآمدی ذرائع میں تنوع اور وسعت پیدا کر رہا ہے۔
وزارتِ خارجہ نے مزید کہا کہ ہندوستان گزشتہ ایک دہائی سے جغرافیائی و سیاسی حالات کو متوازن رکھتے ہوئے امریکہ سمیت مختلف شراکت دار ممالک سے تیل کی خریداری کے امکانات بڑھا رہا ہے۔
موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ توانائی تعاون میں دلچسپی ایک مثبت اشارہ ہے اور یہ ہندوستان کی خودمختاری کے احترام کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی دوران، روس کے سفیر ڈینس الیپو نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ روس سے تیل خریدنا ہندوستانی معیشت کے لیے فائدہ مند ہے۔ انہوں نے کہا، ’’روسی حکومت ہندوستان اور امریکہ کے دو طرفہ فیصلوں میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ دونوں ممالک اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔‘‘
الیپو نے اس بات کو بھی اعادہ کیا کہ روس توانائی کے شعبے میں ہندوستان کے ساتھ طویل المدتی شراکت داری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری جانب، ہندوستان کی داخلی سیاست میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ٹرمپ کے بیان کو بنیاد بنا کر مودی حکومت پر سخت تنقید شروع کر دی ہے۔
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ وزیرِ اعظم مودی امریکی صدر کے زیرِ اثر آ گئے ہیں۔
انہوں نے اس سلسلے میں ہندوستان کی خاموشی، مودی کی جانب سے ٹرمپ کو بار بار مبارکباد کے پیغامات، اور بعض سفارتی اجلاسوں سے ان کی غیر حاضری کا حوالہ دیا۔
دریں اثنا، ہندوستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ روس سے تیل کی خرید سے عالمی توانائی منڈی کو استحکام حاصل ہوا ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ روس-یوکرین بحران کے آغاز پر اس وقت کی بائیڈن انتظامیہ نے خود ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ روس سے خام تیل خریدتا رہے تاکہ عالمی منڈی میں عدم استحکام پیدا نہ ہو۔
صدر ٹرمپ نے اگست کے آخری ہفتے میں قومی سلامتی کے نام پر ہندوستان سے روسی تیل کی خریداری کے خلاف 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا تھا، جس کے نتیجے میں ہندوستانی اشیا پر امریکی مارکیٹ میں مجموعی ٹیکس 50 فیصد تک پہنچ گیا۔
اس کے باوجود، ہندوستان نے حالیہ عرصے میں امریکہ سے بھی تیل خریدنا شروع کر دیا ہے۔
جمعرات کو جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ستمبر میں امریکہ کو ہندوستانی برآمدات میں کچھ کمی ضرور آئی، مگر اس کے باوجود ہندوستان کی کُل تجارتی برآمدات میں سال بہ سال 6 فیصد اضافہ درج کیا گیا۔
فی الحال، ہندوستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے، اور دونوں ممالک کے حکام نے مذاکرات کو مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔