Masarrat
Masarrat Urdu

ٹرمپ کا بیان مسترد، معاہدہ ابراہیمی کا حصہ نہیں بنیں گے، عراقچی

  • 12 Oct 2025
  • مسرت ڈیسک
  • دنیا
Thumb

تہران، 12 اکتوبر (مسرت ڈاٹ کام) ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ معاہدہ ابراہیم انقلاب اسلامی کے اصولوں سے متصادم ہے، ایران کبھی بھی اس خائنانہ منصوبے کا حصہ نہیں بنے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران ابراہیم معاہدے میں شامل ہوسکتا ہے۔

عراقچی نے کہا کہ یہ منصوبہ خائنانہ ہے اور اسلامی انقلاب کے اصولوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا اس لیے ایران کا اس میں شامل ہونا ممکن ہی نہیں۔

انہوں نے سرکاری ٹی وی کے پروگرام  میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے لیکن اب بھی غزہ کا 50 فیصد سے زائد علاقہ اسرائیلی قبضے میں ہے اور یہ واضح نہیں کہ اسرائیل مکمل طور پر پیچھے ہٹے گا یا نہیں۔

عراقچی نے کہا کہ ایران ہمیشہ سے غزہ کی حمایت کرتا آیا ہے اور موجودہ جنگ بندی مزاحمتی گروہوں کا فیصلہ ہے جسے ایران تسلیم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت خارجہ کا مؤقف حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ نسل کشی رکے، انسانی امداد پہنچے اور فلسطینی عوام کے حقوق بحال ہوں۔

عراقچی نے اسرائیل کی چالاکیوں اور دھوکہ دہی سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی ایسے معاہدوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ مزاحمتی گروہ اور جنگ بندی کے مذاکرات میں شامل تمام فریقین بھی یہی کہتے ہیں کہ ابھی صرف پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، اور اس کے بعد مراحل مزید مشکل ہوں گے۔ بعد میں یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ امریکی اور مغربی حکام وعدوں پر قائم نہیں رہتے۔

انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کے ساتھ نہ کوئی پیغام رسانی ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی خفیہ مذاکرات۔ ایران کی پالیسی ہمیشہ واضح رہی ہے کہ مذاکرات صرف جوہری معاملے تک محدود ہیں اور مزاحمت یا دیگر امور پر کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔

عراقچی نے کہا کہ موجودہ امریکی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ ان کے مؤقف اور دعوے مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور یہ بات ایران کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی واضح ہوچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے معاملے میں، چاہے وہ ٹرمپ کی باتیں ہوں یا پیش کردہ منصوبے، کئی وعدے کیے گئے ہیں، لیکن ان پر سنجیدہ شکوک و شبہات موجود ہیں۔

عراقچی نے کہا کہ وہ جب بھی کسی غیر ملکی عہدیدار سے بات کرتے ہیں، خطے کے وزرائے خارجہ اور دیگر ذمہ داران سبھی ان وعدوں پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔

عراقچی نے اسنیپ بیک میکانزم اور یورپی ممالک کی جانب سے ایران کو بھیجے گئے پیغامات کے بارے میں کہا کہ ایران نے ہمیشہ واضح طور پر کہا ہے کہ جامع معاہدہ صرف جامع مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوتا ہے۔ ایران کی بات چیت صرف جوہری پروگرام تک محدود رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کے تین ممالک یہ بتائیں کہ ہمیں ان سے مذاکرات کیوں کریں؟ ہم نے ایک معاہدہ کیا تھا، امریکہ اس سے نکل گیا اور یورپی ممالک نے بھی خلاف ورزی کی۔ ہم نے ان کے خلاف ردعمل دیا، اور انہوں نے صرف وہی آپشن استعمال کیا جو ان کے پاس تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ یہ آپشن استعمال کریں گے تو یورپ کا کردار ختم ہو جائے گا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ان سے بات کیوں کریں اور وہ کیا کر سکتے ہیں؟ مذاکرات کا فائدہ کیا ہوگا؟

Ads