نئی دہلی,دسمبر 5 2019
سیکولر پارٹیاں پارلیمنٹ میں بل پاس ہونے سے روکیں، عوام اس تجویز کی مخالفت کریں
مرکزی کابینہ نے متنازعہ و تفریقی شہریت ترمیمی بل کو اپنی منظوری دے دی ہے، جس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں بل پیش کئے جانے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ کابینہ کی اس منظوری سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی موجودہ حکومت کو دستور کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
مجوزہ ترمیم کی رُو سے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک سے آنے والے ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ، پارسی اور جین لوگ ہندوستان کی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے اس فہرست سے مسلمانوں کو باہر کرکے اپنے حقیقی فرقہ وارانہ چہرے کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف مظلوم مذہبی اقلیتوں کو یہ موقع فراہم کرنے کا حکومت کا دعویٰ سراسر فریب پر مبنی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا مسلمان سب سے زیادہ ستائی ہوئی نسلی اقلیت ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کی سرحد ہندوستان سے ملتی بھی نہیں ہے، جبکہ میانمار کی سرحد ہندوستان سے ملتی ہے۔
شہریت دینے کے لئے مذہب کو ئی معیار نہیں ہونا چاہئے، لیکن ایسا کرکے بی جے پی حکومت نے آئین ہند کی دفعہ 5تا 10، دفعہ 15 اور دفعہ 29 کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں شہریت کے مستحق مختلف قسم کے لوگوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام دفعہ 14 کے بھی خلاف ہے، جس میں سب کے لئے یکساں حقوق کی بات کی گئی ہے۔
جنوری 2018 میں سابقہ این ڈی اے حکومت کے ذریعہ لوک سبھا میں پاس کردہ بل کو شمالی ریاستوں کی مخالفت کی وجہ سے راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا گیا، مخالفت کرنے والوں میں بی جے پی کی حلیف پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ ان علاقوں میں بل کی مخالفت ابھی بھی جاری ہے، لیکن حکومت اسے دوبارہ پیش کرنے کے لئے اتاولی ہوئی جا رہی ہے۔
پاپولر فرنٹ مرکزی کابینہ سے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے اور ساتھ ہی شہری سماج کی تمام سیکولر و جمہوری طاقتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس مجوزہ ترمیم کے خلاف آگے آئیں، جو کہ ہمارے دستور کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔