نئی دہلی ، 19مئی (مسرت ڈاٹ کام)خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک پسندیدہ صنف ہے۔ موجودہ عہد میں جن لوگوں نے اسے اعتبار بخشا ہے ، ان میں معصوم مرادآبادی کانام سرفہرست ہے۔معصوم مرادآبادی بنیادی طورپر صحافی ہیں لیکن ان کی تحریریں صحافت اور ادب کا حسین امتزاج ہیں۔اب ان کی پہچان صحافی سے زیادہ بہترین انشا پرداز کے طورپر ہونے لگی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ادیب اور دانشورپروفیسر محسن عثمانی ندوی نے سینئر صحافی ، ادیب اور خاکہ نگار معصوم مرادآبادی کے خاکوں کے دومجموعوں ’نگینے لوگ ‘ اور چہرے پڑھا کرو‘کی رسم رونمائی کے موقع پر کیا۔
اس موقع پر پروفیسر اخترالواسع نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ’’ ہم بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم معصوم مرادآبادی کے عہد میں جی رہے ہیں۔کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ ان کے قلم سے کسی شخصیت کا خاکہ یا تذکرہ پڑھنے کونہ ملتا ہو۔ ان کی تحریریں پڑھ کر ابن انشا ئ کی یاد آتی ہے۔’نگینے لوگ ‘ اور ’چہرے پڑھا کرو‘دونوں ہی کتابیں غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں۔‘‘
سابق ممبر پارلیمنٹ اور سفیر م ۔ افضل نے کہا کہ ’’ مجھے فخر ہے کہ میرے ساتھ ایسے لوگوں نے کام کیا جو آج اردوصحافت اور ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ معصوم مرادآبادی کو میں اس لیے اہمیت دیتا ہوں کہ انھوں نے اپنی محنت ، لگن اور ایمانداری سے صحافت اور ادب دونوں میں نام کمایا۔ وہ جتنے اچھے صحافی ہیں، اتنے ہی اچھے ادیب اور خاکہ نگار بھی ہیں۔‘‘
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے مہمان ذی وقار کی حیثیت سے معصوم مرادآبادی کی صحافتی، علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان میں بات کہنے کا جوسلیقہ ہے وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔انھوں نے لوگوں کے ذہنوں پراپنی انشائ پردازی کے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔وہ تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں اور ان کے قلم سے بہترین تحریریں منظرعام پر آرہی ہیں۔حال ہی میں قومی اردو کونسل نے بھی ان کی ایک تحقیقی کتاب شائع کی ہے۔‘‘انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ’’ میں اور معصوم مرادآبادی جدوجہد کے دنوں کے ساتھی ہیں ۔ انھوں نے جو اسٹرگل کی ہے اسے دیکھ کر بہت حوصلہ ملتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی اگلی کتاب اردو صحافت کی پیچیدہ راہداریوں کا احاطہ کرے گی۔‘‘
شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر شہزادانجم نے اپنی تقریر میں ’چہرے پڑھا کرو ‘‘ اور ’’نگینے لوگ‘‘ کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوے کہا کہ ’’مجھے معصوم مرادآبادی کے اسلوب نے سب سے زیادہ متاثرکیا ہے۔ان کی زبان وبیان ، اسلوب ، معلومات اور رشتوں سے ان کے علم وحلم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔وہ بڑی سے بڑی بات کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔‘‘ سینئر صحافی سہیل انجم نے ’’نگینے لوگ ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کتاب خاکہ نگاری کے باب میں ایک اہم ا ضافہ ہے اور اس میں شامل طنزیہ ومزاحیہ خاکے بہت لطف دیتے ہیں۔‘‘
ممتاز فکشن نگار ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا ’’معصوم مرادآبادی کی صحافت اور خاکہ نگاری میں ایک مماثلت ہے ۔ وہ بہت کم وقت میں کسی شخص کی تصویر کشی بڑی مہارت سے کرتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں بڑی رنگا رنگی ، روانی ہے اور انداز نگارش نہایت سادہ اور دل نشیں ہے۔‘‘
معروف صحافی اور شاعر تحسین منور نے کہا کہ ’’معصوم مرادآبادی کسی شخصیت کا مطالعہ بہت باریک بینی کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کی نگاہ ان پہلوؤں تک جاتی ہے جہاں تک عام لکھنے والوں کی رسائی نہیں ہے۔ مجھے سب سے زیادہ ان کی آسان ، رواں اور دلچسپ زبان نے متاثر کیا ہے۔‘‘
عالمی شہرت یافتہ مزاحیہ شاعر ڈاکٹر اعجاز پاپولر میرٹھی نے کہا کہ ’’معصوم مرادآبادی کی ادبی تحریروں نے مجھے حددرجہ متاثر کیا ہے اور میں ان کی نثر کا مداح ہوں۔ ان کا پیرایہ اظہار بڑا دلچسپ اور بیانیہ بہت متاثر کن ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نثر میں شاعری کررہے ہیں۔‘‘
صاحب کتاب معصوم مرادآبادی نے کہا کہ ’’زندہ لوگوں پر خاکے لکھنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس عمل میں آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا احتمال ہوتا ہے۔زندہ لوگوں کی تصویر کشی اگر طنزیہ اور مزاحیہ پیرائے میں کی جائے تو یہ ایک جوکھم بھرا کام ہے ، لیکن خطروں سے کھیلنا ہی ہم صحافیوں کا کام ہے۔ ان دونوں کتابوں میں جن لوگوں کا تعارف کرایا گیا ہے وہ علمی وادبی دنیا کی اہم شخصیات ہیں ۔‘‘
انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیراہتمام اس تقریب میں جواہم ادبی اور علمی شخصیات موجود تھےں،ان میں صحافی قربان علی، حسن ضیائ، محمداحمد کاظمی ، جاوید اختر ،روؤف رامش کے علاوہ خواجہ محمداکرام ، پروفیسر سلیم قدوائی ، انیس اعظمی ، حقانی القاسمی ،ڈاکٹر عبدالباری، مرزاجاوید علی ، شفیع دہلوی، حسیب احمد ،پروفیسر عصمت جہاں ، ناصر عزیزایڈووکیٹ ، رئیس احمد ایڈووکیٹ ، عبدالرشید انصاری، نجم جاوید عثمانی ،ڈاکٹر محمد آدم ،ثروت عثمانی ، ڈاکٹر سید احمد خاں، عبدالصمد دہلوی ، مولانا صہیب قاسمی کے علاوہ بیرونی حضرات میں سیدعظمت حسین (مانچسٹر)نوین گری (کناڈا)اسد مولائی (مرادآباد)ڈاکٹر ظہیر احمد خاں اور حاجی خورشید احمد راہی (بلند شہر) کے نام قابل ذکر ہیں۔نظامت کا فریضہ معروف شاعر اور صحافی معین شاداب نے انجام دیا ۔