آج یہاں جاری ایک بیان انہوں نے کہا کہ جس بات کا خدشہ علی خان نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ظاہر کیا تھا۔ ہریانہ پولیس کے ذریعہ علی خان کی گرفتاری نے صحیح ثابت کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر علی خان نے سوشل میڈیا پوسٹ میں انتہا پسندی پر تنقید کی ہے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹس میں سماج دشمن، ملک مخالف، یا بدسلوکی پر مبنی مواد سے مبرا ہونے کے باوجود، اسے صرف اور صرف ملک کے اندر گھریلو ناانصافیوں پر روشنی ڈالنے کے لیے نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی گرفتاری اختلاف رائے اور اقلیتی آوازوں کے تئیں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کرتی ہے۔
مسٹر ادیب نے کہا کہ 1,000 سے زیادہ ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے گروپوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی طور پر محرک قرار دیا ہے۔ ہم ان کی فوری رہائی اور تمام من گھڑت الزامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف ایک وزیر کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گرد کی بہن کہکر توہین کرتا ہے لیکن اب اس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور دوسرا وزیر فوجی کو مودی کے سامنے سجدہ ریز بتاتا ہے لیکن ابھی بھی وہ اپنے عہدے برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سا قانون ہے ۔ کیا یہ قانون کا دہرا معیار نہیں ہے۔