نئی دہلی، 28 اپریل (مسرت ڈاٹ کام) سروجنی نائیڈو سینٹر فار وومینس اسٹڈیز نے ڈاکٹر ذاکر حسین حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشترا ک سے میر انیس ہال،جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ دنوں کو ’واہموں کا ازالہ: اسلام میں خواتین کے متعلق حقیقت کو فکشن سے الگ کرنا“ کے موضوع پر ایک توسیعی خطبے کی میزبانی کی۔
مشہور اور ممتاز ماہر اسلامیات برطانوی اسکالر ڈاکٹر شیخ محمد اکرم ندوی نے یہ خطبہ پیش کیا۔وہ اس سے پہلے کمبرج اسلامی کالج کے ڈین رہ چکے ہیں اور سردست السلام انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل اور کئی جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب المحدثات کی وجہ سے مشہور ہیں جس میں اسلامی تاریخ میں خواتین اسکالروں کی دستاویز مرتب کی گئی ہے۔ اسلامی فقہ اور حدیث میں انھیں اتھاریٹی کا درجہ حاصل ہے اور اپنی تعلیمات سے پوری دنیا میں قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی روح پرور تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہواجس کے بعد پروفیسر نشاط زیدی،اعزازی ڈائریکٹر،ایس این سی ڈبلیو ایس نے حاضرین کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ پروفیسر حبیب اللہ خان،اعزازی ڈاکٹر ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مہمان مقرر کا تعارف پیش کیا۔پروفیسر حبیب اللہ نے اسلامی اسکالرشپ کے تئیں ڈاکٹر ندوی کی عالمی سطح پر خدمات کو خاص طور سے صنف اور حدیث پر ان کے کاموں کو کافی سراہا۔
ڈاکٹر ندوی کے خطبے نے ہا ل میں موجود سامعین کو مسحور کردیا۔انھوں نے اپنی تقریر میں اسلام میں خواتین کے حوالے سے دقیانوسی خیالات کو دورکرنے کے سلسلے میں مذاکرات اور بات چیت کی اپیل کی۔ چالیس جلدوں پر مشتمل کتاب المحدثات: جس میں اسلام کی خواتین اسکالروں کی خدمات کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔
مہمان مقرر نے سخت کاوش اور اسلام کی بہتر تفہیم کے ذریعہ تاریخی بیانیوں، عمومیت،واہموں اور مردانہ اساس تصورات کے از سر نو جائزے کا ایک دلچسپ مطالعہ پیش کیا۔ مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور باہمی عزت و احترام کی ان کی اپیل نے آج کی متنوع دنیا میں خطبے کی معنویت کی تقویت کے ساتھ سامعین کے درمیان سرگرم بحث و مباحثے کا در وا کردیا۔
ان کی تقریر کے بعد پروفیسر مظہر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدارتی تقریر ہوئی جس میں انھوں نے انکوزیو ڈسکورس کے تئیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عہد پر زوردیا اور مسلم معاشرے کو سمت دینے میں کوخواتین کے اہم رول کو اجاگر کیا۔انھوں نے سامعین سے کہاکہ وہ اپنی زندگیوں میں خواتین کے ساتھ مساوی برتاؤ کریں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں جو خواتین کی عزت کرے۔
سامعین میں کافی اہم شخصیا ت موجود تھیں جن میں پروفیسر محمد مسلم خان،(ڈین،فیکلٹی آف سوشل سائنسز) پروفیسر اقتداخان،(ڈین، فیکلٹی آف ہیومنیٹیز اینڈ لنگویجیز) پروفیسر کوثر مظہری،ایس این سی ڈبلیو ایس کی فیکلٹیز اور اسٹاف اور ڈاکٹر ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے علاوہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں اور مراکز کے اساتذہ، محققین اور طلبہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر ترنم صدیقی، سروجنی نائیڈو سینٹر فار وومینس اسٹڈیزاس خطبے کی کنوینر تھیں اور اس کی نظامت کے فرائض بھی انھوں نے ہی انجام دیے تھے۔ سینٹر فار وومینس اسٹڈیز کے وقف رضا کار ویبھو، ضوئیبا،گارگی مشرا، شبھانگی،راعیہ قمر اور ایم۔اے جینڈر اسٹڈیزکی محترمہ فاطمہ زہرو نے پروگرام کو خوش اسلوبی سے منعقد کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پروفیسر نشاط زیدی نے مقرر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرندوی کا لیکچر غلط طور پر رائج تصورات کو چیلنج کرنے اور درست مذاکرات کے طریقے کو اپنانے کا واضح پیغام تھا۔انھوں نے مزید کہاکہ ’ان کی علمی قابلیت ہمیں مساوات اور تفہیم کی جستجو میں روایت اورجدت کے درمیان خلیج کو پُر کرنے کی تحریک دیتی ہے۔
سوال و جواب کے سیشن کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا جس میں متعلقہ موضوع سے متعلق اہم سوالات پوچھے گئے جن کے تشفی بخش جوابات مقرر نے دیے۔
ایم اے جینڈر اسٹڈیز کی طالبہ گارگی مشرا نے اخیر میں باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔