فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے دو مختلف رہنماؤں نے پیر کے روز اس امر کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ جنگ بندی معاہدے کے طے شدہ نکات کے مطابق جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے ساتھ حماس کے دو مختلف رہنماؤں نے الگ الگ اس موضوع پر بات کی ہے۔
خیال رہے جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کے 16 دن بعد اگلے مرحلے کے لیے فریقین اپنے ثالثوں کے توسط سے دوبارہ ملیں گے اور جنگ بندی کے اگلے مرحلے کے لیے طریقہ کار طے کریں گے۔
معاہدے کی اس شق کے تحت پیر کے روز 3 فروری سے یہ مذاکرات ہونا تھے۔ تاہم اسرائیل نے ان مذاکرات کے لیے اپنے وفد کو جانے سے روک دیا ہے۔
حماس کے رہنما نے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام خبر کا حصہ بنانے سے منع کیا اور کہا کہ معاملہ کافی حساس نوعیت کا ہے۔ اس لیے وہ اپنا نام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ البتہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگ بندی معاہدہ کرانے والے ثالث ملک اسرائیل کو جنگ بندی میں رکاوٹ پیدا کرنے سے روکیں گے۔
حماس کے دوسرے رہنما نے کہا ' ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمیں ثالث ملکوں کی طرف سے مذاکرات کے لیے جمع ہونے کی دعوت دی جائے اور ہمارا نمائندہ وفد اس میں شرکت کے لیے جائے۔
جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دنوں پر مشتمل ہے اور اس دوران حماس نے تقریباً 33 اسرائیلی قیدیوں کو غزہ سے رہا کرنا ہے۔ جبکہ ان 33 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل کو 1900 فلسطینی اسیران کی رہائی کرنا ہے۔ اسرائیل کے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے سے متعلق ہے جو جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کے بعد کی جائے گی۔
تاہم اسرائیلی حکام جنگ بندی کو جاری رکھنے کے بجائے ازسر نو جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں زیادہ دے رہے ہیں۔ اگرچہ غزہ میں قید اسرائیلیوں کے اہلخانہ کے علاوہ اسرائیلی عوام کی طرف سے مسلسل یہ احتجاج جاری ہے کہ تمام قیدیوں کو جلد سے جلد واپس لایا جائے اور جنگ بندی کو خراب نہ کیا جائے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ جس میں وہ جنگ بندی سے متعلق ایک بار پھر اپنی حکومت اور اتحادیوں کے تحفظات ٹرمپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے مستقبل کے اہفداف کے لیے ٹرمپ کی مدد کے طالب ہوں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قییدوں کی رہائی کی تکمیل، جنگ بندی معاہدے کا مستقبل اور غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کو دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے کے ٹرمپ منصوبے پر عملدرآمد کے لیے کوششیں ٹرمپ اور نیتن یاہو کی اس ملاقات کے اہم نکات سمجھے جا رہے ہیں۔