نئی دہلی، 28نومبر (عمران خاں) راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں عوام کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے ناراضگی اور کانگریس کی طرف واضح عوامی رجحان کو سیکولر اقدار اور جمہوری اصول کی فتح قرار دیتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے الزام لگایا کہ ان ریاستوں میں عوام بی جے پی کی حکمرانی سے تنگ آچکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جس طرح عوام بی جے پی کی عوام مخالف آمرانہ پالیسیوں سے تنگ آکر کانگریس کے ساتھ یک جہتی اور تعاون کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ صاف بتاتا ہے کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بابائے قوم مہاتماگاندھی اور اولین وزیراعظم نہرو کی سیاسی وراثت اور مولانا آزاد کے خوابوں کی ترجمان ، کانگریس پارٹی زبانی جمع خرچ، کھوکھلے دعووں اور اشتہار بازی پر دھیان نہیں دیتی، بلکہ وہ اپنی تاریخ کے ہر دور میں قول سے زیادہ عمل میں یقین رکھتی رہی ہے اور یہاں کے سیکولر کردار کی بقا کے لیے جی توڑ جدو جہد کرتی رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں مرکز کی زیر نگرانی مختلف ریاستوں میں عوامی فلاح و بہبود پر مبنی ایسے پروگرام اور منصوبے نافذ کیے ہیں، جن سے مستفید ہوکر ملک کا کمزور اور غریب طبقہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو نے کے قابل ہو سکا ہے، مگر بی جے پی انھی منصوبوں کو نام بدل کر اپنی طرف منسوب کرتی رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ بی جے پی کی مرکزی سرکار نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے کالے قانون سے اس ملک کے کسانوں اور تجارت پیشہ طبقوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، کسان خود کشی کر رہے ہیں اور جوان طبقہ بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑتا جارہا ہے، پورے ملک میں گائے، لو جہاد اور مندر مسجد کے نام پر خوف کا ماحول قائم کیا جارہا ہے،ایسے میں کانگریس کی طرف ان کا جھکاؤ فطری ہے۔
مولاناقاسمی ان دنوں ان ریاستوں کا ایک وفد کے ساتھ دورہ کر رہے ہیں، جہاں اس وقت اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں۔ انھوں نے کانگریس پارٹی کو غریبوں اور ملک کے عام آدمی کے مسائل سے مربوط پارٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندستان کی نئی نسل اپنا مستقبل کانگریس پارٹی میں روشن دیکھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلی انتخاب سے لے کر پنچایت اوربلدیاتی انتخابات میں بھی ہندوستان کا ہر با شعور شہری مذہب ، ذات پات اور نظریات کی سطح سے اوپر اٹھ کر کانگریس پارٹی اور کانگریسی امیدواروں کے ساتھ اخلاقی حمایت اور عملی تعاون کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
انھوں نے حالیہ ریاستی انتخابات کے تناظر میں کہا کہ ان ریاستوں میں این ڈی اے کے دور اقتدار میں ترقی اور خوش حالی کے میدان میں کوئی نمایاں تبدیلی اس لیے دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری میں بڑے پیمانے پر بد عنوانی کا بول بالا رہا ہے۔ مولانا نے سیکولر رائے دہندگان سے یہ اپیل بھی کی کہ حالیہ ریاستی انتخابات اگلے عام انتخاب کے لیے سیمی فائنل کا درجہ رکھتے ہیں، اس لیے کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اسی پارٹی کے امیدواروں کو فتح سے ہم کنار کریں جو ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔
انھوں نے کانگریس کی زریں تاریخ اور اس کی جمہوری کاوشوں کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے جمہوری ڈھانچے کو سبوتاژ ہونے اور اس ملک کی کثرت میں وحدت سے عبارت مشترکہ گنگا جمنی تہدیب کو اگر کوئی سیاسی پارٹی تحفظ عطا کر سکتی ہے، تو وہ صرف کانگریس پارٹی ہے جو ذات پات اور دھرم سے اوپر اٹھ کر سیاست کرتی ہے اور ملک کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ اور منصوبہ رکھتی ہے۔ انھوں نے بی جے پی اور دوسری علاقائی پارٹیوں کے موجودہ سیاسی اتحاد کو ہرمحاذ پر ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ خاص طور سے بی جے پی کو اپنے دور حکومت میں سیاسی اور عوامی محاذ پر ناکامی سے سبق لیتے ہوئے لمبے چوڑے دعووں اور سادہ لوح رائے دہندگان کو رجھانے کی پالیسی سے باز آجانا چاہیے اور عوام کو مذہب اور دھرم کے نام پر مختلف خانوں میں منقسم کرنے کی پالیسی سے توبہ کرنا چاہیے۔ مولانا نے سیکولر رائے دہندگان سے یہ اپیل بھی کی کہ حالیہ ریاستی انتخابات اگلے عام انتخاب کے لیے سیمی فائنل کا درجہ رکھتے ہیں، اس لیے کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اسی پارٹی کے امیدواروں کو فتح سے ہم کنار کریں جو ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔