Masarrat
Masarrat Urdu

مفسر قرآن،ادیب و شاعر اور طبیب پروفیسر الطاف احمداعظمی کامختصر علالت کے بعد انتقال،آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کا اظہار رنج و غم

Thumb

نئی دہلی، 12 اگست (مسرت ڈٓاٹ کام)ممتازاسلامی مفکر، مفسر قرآن،ادیب و شاعر اور طبیب پروفیسر الطاف احمداعظمی آج یہاں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 81برس تھی۔پسماندگان میں ایک بیٹا اور دوبیٹیاں ہیں۔ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے۔

ذرائع کے مطابق تین درجن سے زائد اہم کتابوں کے مصنف پروفیسر الطاف احمد اعظمی2جولائی 1942کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے اسلامی علوم اور عربی زبان کی تعلیم مدرستہ الاصلاح سرائے میر سے حاصل کی تھی۔بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے طب یونانی کی تعلیم حاصل کی۔دوران تعلیم انھوں نے طلباء یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور پروفسیر مشیرالحسن کو ہراکر یونین کے سکریٹری منتخب ہوئے۔علی گڑھ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے جونپور میں اپنا مطب قایم کیا، لیکن جب حکیم عبدالحمید نے دہلی میں جامعہ ہمدرد کی بنیاد ڈالی تو پروفیسر الطاف احمد اعظمی کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر انھیں دہلی بلالیااور جامعہ ہمدرد میں شعبہ ہسٹری آف یونانی میڈیسن کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں۔ وہ اس ادارے کے سربراہ بھی رہے۔وہ دہلی اردو اکاڈمی کے وائس چیئرمین بھی رہے۔انھوں نے یونانی ادویات اور اسلامی مطالعات کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔جامعہ ہمدرد میں وہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز اور سوشل سائنس کے ڈین بھی رہے۔وہ جامعہ ہمدرد سے شائع ہونے والے جرنل کے بھی ایڈیٹر رہے۔وہ انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی، نئی دہلی کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن بھی رہے۔
پروفیسر الطاف اعظمی کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو پر یکساں عبور حاصل تھا۔وہ تحریروتقریر دونوں پر ملکہ رکھتے تھے۔انھوں نے بیسویں صدی کے ربع آخر میں فکر اسلامی کے اردو لٹریچر میں اہم اضافے کئے۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن حکیم کی تفسیر’میزان القرآن‘ہے جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔اسلامیات پر ان کی دیگر قابل مطالعہ کتابوں میں ’ایمان وعمل کا قرآنی تصور‘،’توحید کا قرآنی تصور‘،’وحدۃ الوجود:ایک غیراسلامی نظریہ‘قابل ذکر ہیں۔
ان کی تدفین بعد نماز عشا ان شاء اللہ بٹلہ ہاؤس قبرستان میں  عمل میں آئےگی۔
دریں اثنا آل انڈیا یونانی طبی کانگریس نے ان کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔
الطاف احمد اعظمی آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے2008 میں قومی کارگزار صدر رہ چکے ہیں۔وہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل تھے  ۔ان کی تحریر بہت معتبر مانی جاتی تھی ۔ انکے انتقال سے طبی دنیا سوگوار  کی لہر دوڑ گئی۔۔ایمانداری اور سادہ زندگی ان کا شعار تھا۔
آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر سید احمد خاں نے ان کے انتقال کو اپنا ذاتی نقصان بھی قرار دیا ہے۔

Ads