Masarrat
Masarrat Urdu

ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت کے لئے اے ایم یو نا کافی ، مزید سیکڑوں یونیورسٹیوں کی ضرورت : پروفیسر طارق منصور

Thumb



علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کا کہنا ہے کہ اے ایم یو ایک بنیادی مُحرّک کے طور پر توکام کرسکتا ہے مگر 20؍کروڑ مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے۔ جناح کی تصویر کے سلسلہ میں پروفیسرمنصور نے کہاکہ یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ انھوں نے کہا ’’ایک جمہوری سماج میں ہم کسی کو کوئی بیان دینے سے نہیں روک سکتے ، لیکن ہم مہمل اور غیرمتعلقہ بیانات کا نوٹس نہیں لیتے اور اس پر ردّعمل نہیں ظاہر کرتے‘‘۔ 
پروفیسر منصور نے ایک انگریزی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔ اس دوران انھوں نے اقلیتی اداروں کی حیثیت، اظہار رائے کی آزادی، تعلیمی اداروں میں ’سماج دشمن عناصر‘ کی موجودگی اور طب کی تعلیم میں نیٹ (NEET)کے کردار جیسے اہم موضوعات پر اپنی بے باک رائے کا اظہار کیا۔ 
جناح کی تصویر ، اس پر پیدا ہونے والے سیاسی تنازعہ اور موجودہ سیاسی حالات میں اے ایم یو جیسے ممتاز ادارے کے کردار پرایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ اے ایم یو کو بڑا اہم کردار ادا کرنا ہے۔ انھوں نے کہا’’ نوجوانوں میں ہمیں جمہوریت، سیکولرزم اور رواداری کے اصولوں کو پروان چڑھانا ہے۔ یہ اصول پہلے بھی اہم تھے ، البتہ میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ اور زیادہ اہم ہوگئے ہیں۔ اے ایم یو ایسی یونیورسٹی ہے جہاں ہر خطہ اور سماج کے لوگ ہیں۔ یہاں 31؍ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے طلبہ طالبات پڑھتے ہیں۔ ہمارے یہاں کشمیر کے 1000، آسام کے 800، مغربی بنگال کے 1000؍طلبہ ہیں، لہٰذا ہر اعتبار سے ہم ایک متنوع اور عظیم یونیورسٹی ہیں۔ چنانچہ ہم جو بھی پیغام دیں گے اور جس طرح برتاؤ کریں گے ، اس کا قومی سیاست پر ایک اثر پڑے گا۔ ہم سب کو ساتھ رہنا ہوگا۔ ہم کیمپس میں خوشگوار ماحول میں رہ رہے ہیں اور ہم ایک سیکولر اور جدید ادارہ ہیں جہاں سائنسی تعلیم دی جاتی ہے۔ اے ایم یو میں 103؍شعبے اور سنٹر ہیں جن میں میڈیکل اور ڈینٹل کالج وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے اساتذہ متنوع پس منظر کے ہیں اورہر اعتبار سے ہم ایک متنوع یونیورسٹی ہیں۔ ہمیں بہت ذمہ داری ، سنجیدگی اور رواداری کا مظاہر ہ کرنا ہوگا‘‘۔ 
پروفیسر طارق منصور نے ایک سوال کے جواب میں کہا ’’کیمپس کے باہر جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر کہیں نہ کہیں کیمپس کے اندر ہوتاہے، نہ صرف کیمپس کے باہر بلکہ ملک میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم پر اثر انداز ہوتا ہے‘‘۔ 
جناح کی تصویر اور اس پر اٹھنے والے تنازعہ کے سلسلہ میں پروفیسر منصور نے کہا ’’ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ تصویر سن 1938ء سے ہے..... درجنوں تصاویر ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی توجہ طلب بات ہے۔ ایک مقامی رکن پارلیمنٹ نے ایک خط لکھا اور اسے میرے پاس پہونچنے سے پہلے عام کردیا۔ وہ اے ایم یو کورٹ کے بھی ممبر تھے۔ اے ایم یو کورٹ میں لوک سبھا کے 6؍اراکین ہیں۔ جب وہ کورٹ کے ممبر تھے تو انھوں نے کبھی بھی یہ مسئلہ نہیں اٹھایا۔ ستمبر 2017میں جناح کی تصویر کا یہ معاملہ مقامی اخبارات میں آیا تھا لیکن یہ اپنی موت آپ مرگیا کیوں کہ کسی نے اسے لائق توجہ نہیں سمجھا۔ اس سے پہلے میں بھی نہیں جانتا تھا کہ اے ایم یو طلبہ یونین کے دفتر میں جناح کی کوئی تصویر ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ معاملہ دوبارہ کیوں اٹھا۔ اس کا جواب صرف وہی (رکن پارلیمنٹ) دے سکتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپئی جب جنتا پارٹی میں تھے تو وہ بھی اس ہال میں آئے تھے ۔ انھیں بھی طلبہ یونین کی تاحیات رکنیت عطا کی گئی تھی۔ مہاتما گاندھی، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، سعودی عرب کے باد شاہ اور متعدد نامور شخصیات کو تاحیات رکنیت عطا کی گئی ہے۔ 
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جہاں مسلم طلبہ کی تعداد زیادہ ہے، کس طرح کے خاص مسائل کا سامنا رہتا ہے، اس بارے میں پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’عام طور سے یونیورسٹی میں حالات بہت پرامن رہتے ہیں اور کوئی تشدد نہیں ہوتا، البتہ یہ بات درست ہے کہ کیمپس میں کبھی کچھ اختلاف رائے ہوجاتا ہے جو ایک فطری امر ہے‘‘۔ انھوں نے کہا ’’ضرورت محسوس ہوئی تو حکومت سے بات کی گئی، میں نے چیف سکریٹری کو خط لکھا اور مرکزی وزیر داخلہ سے بھی ملاقات کی‘‘۔ 
آر ایس ایس کے کارکنوں کو کیمپس میں شاکھا لگانے کی اجازت دئے جانے یا یونیورسٹی کے ایک عطیہ دہندہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی سالگرہ منائے جانے کے سلسلہ میں دریافت کئے گئے ایک سوال پر وائس چانسلر نے واضح لفظوں میں کہا کہ ایک جمہوری سماج میں بیانات دینے سے لوگوں کو نہیں روکا جاسکتا مگر ہم مہمل بیانات کا نوٹس نہیں لیتے اور ہر بات پر ردّ عمل ظاہر کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ 
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر ہونے والی سیاسی اور قانونی بحث پر اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’معاملہ عدالت میں ہے اس لئے اس پر فی الحال کوئی سیاسی بحث نامناسب ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ 1982کا ایکٹ جسے پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا اس کا سیکشن 2 واضح طور سے یہ کہتا ہے کہ اے ایم یو کو مسلمانوں کے ذریعہ قائم کیا گیاہے۔ دوسری دفعات بھی ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ اس کا خاص نصب العین مسلمانوں کی ثقافتی اور تعلیمی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ پھر اس ایکٹ کو ہائی کورٹ نے ختم کردیا۔ یونیورسٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر حکم امتناعی جاری کردیا۔ اے ایم یو اب بھی ایک اقلیتی ادارہ ہے اور سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر سماعت ہونے والی ہے ۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جناح کی تصویر ہٹانے کو کہا تھا، وائس چانسلر نے کہا ’’ہمارا حکومتِ اترپردیش سے کوئی واسطہ نہیں۔ اے ایم یو ، دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی کی طرح ہی ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے۔ ہم وزارت فروغ انسانی وسائل کے ماتحت ہیں، چنانچہ حکومت اترپردیش ہمارے نظم و نسق اور انتظامیہ کا حصہ نہیں ہے‘‘۔ 
مسلمانوں اور خاص طور سے ان کے نوجوانوں کی تعلیم کے تعلق سے کون سے چیلنجز درپیش ہیں، اس سوال پر پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’پہلے چند یونیورسٹیاں تھیں اور اے ایم یو ان میں سے ایک تھی۔ لیکن اب مسلمانوں کی تعداد ہندوستان میں کافی زیادہ ہے، 200ملین مسلمان ہیں، جن کے لئے ایک یونیورسٹی کافی نہیں ہے۔ ہمیں سیکڑوں یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کو ہر جگہ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ تعلیم ہمارے ملک کے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ اے ایم یو ایک مُحرّک کے طور پر کام کرسکتا ہے، انھیں مہمیز کرسکتا ہے مگر وہ اکیلے اتنی بڑی آبادی کی تعلیمی ضرورت کو نہیں پوری کرسکتا۔ 
طلبہ سیاست میں پڑیں یا نہ پڑیں، اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ مختلف یونیورسٹیوں میں، مثال کے طور پر دہلی یونیورسٹی، جے این یو، الہ آباد یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی وغیرہ میں طلبہ یونین اور ٹیچرس ایسوسی ایشن کے انتخابات پارٹی خطوط پر ہوتے ہیں ، تاہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انتخابات پارٹی خطوط پر نہیں ہوتے۔ انھوں نے بتایا کہ طلبہ یہاں انفرادی طور سے الیکشن لڑتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں فنڈ نہیں دیتیں۔ البتہ بعد میں کچھ طلبہ سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ 
جے این یو میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والے تنازعہ کے حوالہ سے سوال کئے جانے پر پروفیسر طارق منصور کہا ’’ہر یونیورسٹی میں الگ الگ مسائل ہوتے ہیں۔ کسی جمہوریت میں یقیناًاظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے مگر کچھ حدود بھی ہونے چاہئیں۔ اظہار رائے کی آزادی تو ہے مگر اسے تشدد تک نہیں پہونچنا چاہئے ۔تشدد ناقابل قبول ہے۔ بہر حال ، اگر کوئی فرد کسی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہے، کوئی نعرہ لگانا چاہتا ہے تو اسے اشتعال انگیز یا ملک مخالف نہیں ہونا چاہئے ۔..... ویسے مجھے علم نہیں کون سے نعرے لگائے گئے تھے یا نہیں لگائے گئے تھے۔ ہر چیز کو قانون کے دائرہ میں ہونا چاہئے ۔ کسی بھی سماج کے لئے قانون سب سے اہم چیز ہوتی ہے۔ 
یہ دریافت کئے جانے پر کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو مسلم سیاست کا ایک بڑا مرکز ہے وہاں پر یونین کے انتخابات پارٹی خطوط پر کیوں نہ ہوں ، وائس چانسلر نے کہا کہ اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ، یہ اے ایم یو کی ایک روایت ہے۔ 
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس وقت کس طرح کے ریسرچ پروجیکٹ چل رہے ہیں، اس سوال پر پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ اے ایم یو میں متعدد شعبے ہیں اور یہاں انٹرڈسپلنری ریسرچ کے بہت مواقع و امکانات ہیں۔ ہر شعبے میں ، طب، زرعی سائنس، ڈینٹل سائنس وغیرہ میں ریسرچ ہورہی ہے۔ اے ایم یو ان چند یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین مطالعات کا مرکز ہے ۔یہاں خواتین کے سماجی ، اقتصادی حالات اور دیگرمتعلقہ موضوعات پر ریسرچ جاری ہے۔ اس کے علاوہ آب و ہوا کی تبدیلی، غذائی تحفظ وغیرہ پر بھی تحقیق ہورہی ہے۔ حال ہی میں سنٹر آف نینو ٹکنالوجی کا قیام ہوا ہے۔ ہر سال اے ایم یو میں پی ایچ ڈی میں 600-800طلبہ کا داخلہ ہوتا ہے۔ اے ایم یو میں تقریباً23000طلبہ زیر تعلیم ہیں ، جس میں سے 16500؍طلبہ ہاسٹلوں میں رہتے ہیں۔ ہمیں ان سب کو دیکھنا ہے... اس میں 30؍فیصد طالبات ہیں۔ تعداد میں غٰیرمعمولی طور سے اضافہ ہوا ہے۔ کچھ فیکلٹیز میں ، پوسٹ گریجویٹ کورسیز۔نباتیات، علم الحیوانات۔ میں لڑکیوں کی اکثریت ہے۔ میڈیکل فیکلٹی میں بھی زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ اے ایم یو میں لڑکیوں کے لئے ایک مخصوص انڈرگریجویٹ ویمنس کالج ہے۔ 
اے ایم یو کیمپس میں صنفی مساوات اور طلبہ یونین کے انتخابات میں لڑکیوں کی شمولیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر منصور نے کہاکہ صنفی مساوات کے لئے ہم پرعزم ہیں، اے ایم یو میں لڑکیاں الیکشن لڑ سکتی ہیں اور حالیہ یونین میں دو طالبات ایکزیکیٹو ممبر تھیں۔ ایک دیگر سوال پر وائس چانسلر نے کہاکہ ہاسٹل میں رہنے والے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر کچھ پابندیاں عائد ہیں۔ ضابطوں کے مطابق لڑکوں کو بھی کچھ مخصوص اوقات کے بعد باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 
سماجی علوم کے شعبہ میں کس قسم کی ریسرچ ہورہی ہے اور کیا ریاضی اور سائنس کی طرف رجحان زیادہ ہورہا ہے، اس بارے میں پروفیسر طارق منصور نے کہا’’شعبۂ تاریخ میں عہد وسطیٰ اور جدید تاریخ پر کافی ریسرچ ہورہی ہے اور سماجی علوم میں دلچسپی کم نہیں ہوئی ہے۔ اے ایم یو، بی ایچ یو، ڈی یو اور جے این یو جیسی روایتی یونیورسٹیوں میں ہمیں قدیم شعبوں مثلاً تاریخ، فلسفہ، السنہ وغیرہ کو اہمیت دینی ہوگی۔ ان شعبوں کی وجہ سے ہماری شہرت ہے‘‘۔ 
علی گڑھ سے باہر اے ایم یو کے مراکز کے بارے میں دریافت کئے جانے پر وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ فی الوقت ہمارے مراکز ملاپورم، مرشدآباد اور کشن گنج میں ہیں۔ انھوں نے کہا ’’وہاں پر مینجمنٹ، لاء جیسے کچھ ہی مخصوص کورسیز ہیں۔ ہم نے ان مراکز کی توسیع کی خاطر حکومت سے فنڈ کے لئے ایک تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے ہم سے ایک مخصوص منصوبہ مانگا ہے۔ ہم نے ہر مرکز کے لئے 100؍کروڑ روپئے مانگے ہیں۔ ہر مرکز کے جائزہ کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ ملاپورم میں تقریباً 400؍طلبہ اور مرشدآباد میں تقریباً 350؍طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ کشن گنج میں کچھ مسائل کا سامنا ہے کیونکہ جگہ معقول نہیں ہے، وہاں بھی تقریباً250؍طلبہ ہیں۔ وہ نشیبی اور سیلابی علاقہ ہے اور ہمیں اس جگہ کو دو مہینے کے لئے خالی کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے ریاستی حکومت نے ایک باندھ تعمیر کرنے کی درخواست کی ہے۔ 
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی(جے این یو) میں مبینہ طور پر سنٹر فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز کے قیام اور اس میں ایک موضوع کے طور پر ’اسلامی دہشت گردی‘ کو نصاب میں مبینہ طور پر شامل کئے جانے کی تجویز کے حوالہ سے پوچھے گئے ایک سوال پروائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’حکومت نے ہم سے کوئی کورس متعارف کرنے یا ختم کرنے کے لئے کبھی نہیں کہا۔ کسی بھی مذہب یا عقیدہ کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ میں جے این یو پر کوئی رائے نہیں دے سکتا، صرف وہاں کے وائس چانسلر ہی اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ 
’آپ کی وائس چانسلر شپ کے ایک سال ہوگئے ہیں، اے ایم یو کے لئے آپ کے ذہن میں کیاخاکہ ہے‘ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ اے ایم یو اپنے تعلیمی امتیاز کے لئے جانا جائے اور سنجیدہ برتاؤ اور ثقافت کے لئے یہاں کے طلبہ طالبات کا شہرہ ہو۔ اپنی قدروں اور روایات کے لئے ، سینئرس کی عزت، جونیئر سے پیار و محبت اور پوری دنیا میں ، یوروپ و امریکہ میں ، یہاں تک کہ نیوزی لینڈ اور ماریشس جیسے چھوٹے ممالک میں بھی موجود ایلومنائی برادری کے درمیان باہمی اخوت اور مستحکم رشتوں کے لئے ہماری شہرت ہونی چاہئے‘‘۔ 
’طلبہ کی سیاست اے ایم یو کا حصہ ہے یا آپ اسے تعلیم و تدریس کے لئے ایک رخنہ تصور کرتے ہیں‘ اس سوال پر وائس چانسلر نے کہا ’’ملک کی یونیورسٹیوں میں اس محاذ پر کچھ مسائل ہیں۔ ہم عالمی معیار کے ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں اور کچھ یونیورسٹیوں میں جاری سرگرمیاں اس تصور سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ کچھ سماج دشمن عناصر ہیں جوخوشگوار تعلیمی ماحول میں رخنہ پیدا کرتے ہیں۔ میں اے ایم یو کی بات نہیں کررہا ہوں ، میں ہندوستان میں واقع سبھی تعلیمی اداروں ، خاص طور سے ریاستی یونیورسٹیوں کی بات کررہا ہوں۔ میں گزشتہ 35؍برس سے تعلیم کے میدان میں ہوں۔ میں نے اسے بہت سی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی دیکھا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سماج دشمن عناصر کی موجودگی ایک مسئلہ ہے، جسے ہمیں حل کرنا ہوگا‘‘۔ 
پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’کسی بھی تعلیم ادارے میں لگ بھگ 5؍فیصد طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اگر انھیں آپ معطل بھی کردیں تب بھی ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 95-97فیصد طلبہ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ طلبہ اب اپنے کیریئر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور وہ اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن 2-3فیصد طلبہ ہر طرح کا مسئلہ کھڑا کرتے ہیں۔ وہ ایک کورس میں داخلہ لیتے ہیں اور جب وہ پورا ہوجاتا ہے تو کسی دوسرے کورس میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ جمہوریت ہونی چاہئے مگر ہمیں سماج دشمن عناصر پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ 
یہ دریافت کئے جانے پر کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے محاذ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیا کررہی ہے، وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ کچھ شعبوں میں مثلاً انجینئرنگ اور مینجمنٹ وغیرہ میں مسائل ہیں ۔پہلے مانگ بہت تھی، اگر مانگ سے زیادہ سپلائی ہوگی تو جمود آجائے گا۔ اس وقت مانگ سے زیادہ سپلائی ہے ، جس سے ہم بھی متاثر ہوئے ہیں۔ 
’آپ طب کے استاد رہے ہیں۔ ہندوستان میں طب کی تعلیم کے ساتھ کیا مسئلہ ہے‘، اس سوال پر پروفیسر طارق منصور نے کہا ’’ہندوستان میں طبی تعلیم کی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ حکومت کے کالجز ہیں جہاں طلبہ کا انتخاب میرٹ پر ہوتا ہے۔ اچھے طلبہ ایمس، پی جی آئی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، چنڈی گڑھ، اور اے ایم یو سے نکل رہے ہیں اور وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ لیکن کچھ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں تعلیم کا معیار اطمینان بخش نہیں ہے۔ ان کے پاس بہت عمدہ بنیادی ڈھانچہ، لائبریری، لیکچر تھیئٹر، ہوسکتا ہے مگر ان کے پاس مریض نہیں ہیں، تجربہ گاہیں نہیں ہیں۔ اور جب تک آپ کے پاس مریض نہیں ہوں گے آپ کو اچھی ٹریننگ نہیں مل پائے گی۔ اب ضابطہ بندی ہوئی ہے۔ نیٹ (NEET) سے تعلیم کا معیار بلند ہوگا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیس مثال کے طور پر 10؍لاکھ ہے ، مگر پیچھے سے رقم لی جاتی ہے۔ جن کے پاس پیسہ ہے صرف انھیں داخلہ مل رہا ہے۔ یہ میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہورہا ہے۔ لیکن نیٹ کے ساتھ ، ان طلبہ کو بھی کم از کم نمبر تو لانے ہی ہوں گے۔ 
’نیشنل ہیلتھ پروٹیکشن مشن ‘ جو اس سال کے آخر میں شروع ہونے والا ہے، اس بارے میں سوال کئے جانے پر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ اصل مسئلہ فنڈ کا اور اسکیم کے نفاذ کا ہے۔ کچھ کمیاں ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سماج کے کمزور طبقات کو صحت بیمہ فراہم کرنا ایک بہت اچھا خیال ہے۔ ہمارے یہاں طبی سہولیات کی کمی ہے۔ اترپردیش کے کسی بھی ضلع میں جائیں ، آپ دیکھیں گے کہ علاج کی سہولت کا بہت برا حال ہے۔ کچھ جگہوں پر تو یہ ایک دم ندارد ہے۔ ان جگہوں پر تعینات ڈاکٹر کام نہیں کرتے ، وہ کہیں اور کام کرتے ہیں۔ علاج و معالجہ پر ہمیں توجہ دینا ہوگا ۔ کارپوریٹ اسپتال صرف 5-10؍فیصد لوگوں کے لئے ہیں۔ ہمیں صرف علاج و معالجہ کی ضرورت نہیں بلکہ سستے علاج کی سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بہت پیچھے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ بیمہ اسکیم ایک اچھی شروعات ہے۔

Back to Conversion Tool

Ads