اسمتھ نے کہا، دو دن میں 36 وکٹیں گرنا غیرمعمولی ہے۔ پچھلے سال کی پچ بہتر تھی اور میچ پانچویں دن تک گیا تھا۔ اس بار اگر گھاس کی لمبائی 10 ملی میٹر کے بجائے 8 ملی میٹر ہوتی تو بہتر رہتا۔ گراؤنڈز مین ہمیشہ صحیح توازن دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میچ سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔"
اس بار ایم سی جی کے کیوریٹر میٹ پیج نے 7-8 ملی میٹر کی گھاس کی بجائے 10 ملی میٹر رکھی تھی جس کی وجہ سے میچ دو دن میں ختم ہوگیا۔اسمتھ نے مزید کہا کہ جہاں پچ پر فاسٹ باؤلرز کو زیادہ مدد ملتی ہے، وہاں اسپن کھیلنا آسان ہوتا ہے، لیکن ضرورت نہ ہونے پر اسپنرز کو کھیلانا مناسب نہیں۔
ٹیسٹ کی تاریخ میں پہلی بار آسٹریلیا نے پورے میچ میں کسی اسپنر سے گیند بازی نہیں کرائی۔ انگلینڈ نے دو دن میں ایجز کا چوتھا ٹیسٹ جیتا، اور یہ اس سیریز کا دوسرا دو دن والا ٹیسٹ تھا۔ اس سے پہلے 1912 میں ایک سیریز میں ایک سے زیادہ دو دن والے ٹیسٹ کھیلے گئے تھے، اور آسٹریلیا میں صرف چار بار دو دن والے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔
پچھلے 20 سالوں میں ایم سی جی کی پچ آسٹریلیا میں بیٹنگ کے لیے سب سے مشکل رہی۔ اس وجہ سے 1932 کے بعد پہلی بار آسٹریلیا میں کسی ٹیسٹ میں نصف سنچری نہیں بنی، اور صرف 852 گیندیں کھیلی گئیں، جس سے کرکٹ آسٹریلیا کو مالی نقصان کا سامنا ہوگا کیونکہ تیسرے اور چوتھے دن کے لیے لاکھوں شائقین کے ٹکٹ بک کیے گئے تھے۔
