دوسرے اجلاس کی صدارت سابق صدر شعبہ فارسی پروفیسر چندرشیکھر نے کی۔ انہوں نے کہا ہردورمیں زبان سیاست کا حربہ رہی ہے چنانچہ انگریزوں کا فارسی کی جگہ اردوکو سرکاری زبان کا درجہ دینااس خوف کے نتیجے میں بھی تھا کہ ان کے خلاف بغاوت میں اندرونی طاقتوں کو بیرونی تعاون نہ ملے۔ پریم چند کا دور تبدیلیوں سے بھرا ہواتھا لہٰدا اسے ان کے عہد سے الگ کرکے سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
اجلاس سے قبل ’صدائے انصاری‘ کا غالب انسٹی ٹیوٹ کی ادبی خدمات نمبر اور پروفیسر علی احمد فاطمی کی کتاب ’سوزوطن‘ کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔ تیسرے اجلاس کی صدارت پریم چند آرکائیو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈائرکٹر پروفیسر شہزادانجم نے کی۔ صدارتی تقریر میں انہوں نے کہایہ بات درست نہیں کہ پریم چندنے اردو سے ہجرت کی۔ ان کی پوری زندگی پیش نظر ہوتو پتا چلے گاکہ انہوں نے ساری زندگی اردو کی خدمت کے لےے وقف کردی۔ پریم چند کے کچھ کمزور افسانوں کو پڑھنے کے بعد لوگ تاثر دیتے رہیں کہ ان کا فن کمزور ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اردو فکشن کو لازوال اور بے مثال کردار دیے ہیں۔
اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر جاوید حسن نے کی۔ چوتھے اجلاس کی صدارت پروفیسر خالد محمود نے کی۔ صدارتی خطبے میں انہوں نے کہا مجھے بہت خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کااس مرتبہ کا سمینار شاعری کے بجائے فکشن ہے۔ اس طرح یہاں ہونے والے سمینار پورے اردو ادب کا احاطہ کرتے ہیں۔ پریم چند ایسے فنکار ہیں جن سے اسکول کے زمانے سے لے کر رٹائرمنٹ کے بعد تک کبھی رشتہ منقطع نہیں ہوتا۔ یہ ان کے فن کی معراج نہیں تو کیا ہے؟ اس اجلاس کی نظامت مسٹر محمد احمدنے کی۔
