Masarrat
Masarrat Urdu

دارالعلوم دیوبند اور اس کی عظیم خدمات

Thumb


پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
دارالعلوم دیوبند عالم اسلام کا معروف و مشہور دینی،علمی،روحانی اور عالمی مرکزی ادارہ ہے۔بر صغیر میں دین اسلام کی نشر و اشاعت،دعوت و تبلیغ کا یہ سب سے بڑا ادارہ اور دینی،علمی اور روحانی علوم کی تعلیم و تعلم،درس و تدریس اور تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔مادر علمی  ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے ہر زمانے میں ایسے با کمال فضلاء و مبلغین تیار ہو کر نکلے جنہوں نے ہمیشہ صحیح دینی عقائد اور علوم نبویہ کی نشر و اشاعت کی قابل قدر فرائض و خدمات انجام دی ہیں۔یہاں کے فضلاء و مبلغین پوری دنیا میں تاہنوز علمی،دینی روحانی فرائض انجام دے رہے ہیں۔سچائی یہی ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے احیاء اسلام اور تجدید دین کا ایسا نایاب اور مہتم بالشان کارنامہ انجام دیا ہے۔جسے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔دارالعلوم اور اس کے اکابرین نے اپنے جدوجہد،سعی و کوشش،محنت و لگن، جہد مسلسل اور فضل خداوندی سے متحدہ ہندوستان کو دوسرا اسپین بننے سے نہ صرف بچا لیا۔بلکہ علم و فن اور مردم سازی کا ایسا پھلدار باغ لگا دیا جسکی خوشبو سے محض بر صغیر ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام کے لوگ معطر ہوئے۔یہ وہ عظیم کارنامے ہیں جو ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کو عالم اسلام کا ایک عظیم اور مرکزی ادارہ تصور کرتے ہیں۔ہر زمانے میں مختلف ممالک کے طلبہ اپنی علمی،دینی و روحانی تشنگی بجھانے کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کرتے رہےہیں۔چنانچہ قیام دارالعلوم سے لیکر 1382ھج جن ممالک کے طلبہ نے دارالعلوم سے خیر و برکت اور فیض حاصل کیا۔ان ممالک کے نام حسب ذیل ہیں۔ہندوستان۔۔۔3795 پاکستان و بنگلہ دیش۔۔۔3191 افغانستان۔۔۔109 روس و سائبیریا۔۔۔70 چین۔۔۔44 برما۔۔۔144 ملیشیا ۔۔۔28 انڈونیشیا ۔۔۔1 عراق ۔۔۔2 کویت ۔۔2 ایران ۔۔۔11 جنوبی افریقہ ۔۔۔14 سعودی عرب ۔۔۔2 یمن۔۔۔1سیلون۔۔۔2 یہ تو سن 1382ھج تک کے طلبہ کی تعداد ہے۔ اگر 1382 سے اب تک کے طلبہ کو شمار کیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا زیادہ بڑھ جائے گی۔اتنے سارے ممالک کے طلبہ کا دارالعلوم دیوبند آکر علم حاصل کرنا واضح کرتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایک عالمی مرکزی ادارہ ہے۔دارالعلوم کی عالمگیر شہرت کی وجہ سے دنیا بھر کے علماء و فضلاء اور ممتاز ترین شخصیات دارالعلوم کی زیارت کے خواہاں و متمنی رہتے ہیں ۔جو ان کے ان تاثرات سے عیاں و بیاں ہوتا ہے۔جو حضرات دارالعلوم دیکھنے کے بعد ظاہر کرتے ہیں۔ملک شام ایک جلیل القدر عالم دین اور جامعہ حلب کے استاذ فضیلتہ الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ اس طرح قلمبند کرتے ہیں ۔اس عاجز و ناتواں کے لئے اللہ رب العزت کا یہ بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت و زیارت کا موقع عنایت فرمایا۔ بالخصوص ان شہروں میں سرفہرست دیوبند اور اس کی دینی درسگاہ دارالعلوم ہے۔جو درحقیقت ہندوستان کا علم و تقوی سے لبریز،للہیت و معرفت خداوندی سے بھرپور،زندہ قلب علماء، مشائخ،مؤلفین و مصنفین کا مرکز اور دین و معرفت کے طلبہ کی آماجگاہ ہے۔اس دینی،علمی و روحانی مرکزی ادارہ کی ادارہ کی زیارت عمر بھر کی آرزو،خواہش و تمناؤں اور شب وروز کے خوابوں میں سے ایک خواب و تمنا تھی۔ خدا کا لاکھ لاکھ  شکر ہے کہ آج دارالعلوم دیوبند کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ سن 1395 ھج میں فضیلہ الشیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحمید محمود،وکیل الازہر شیخ عبد الرحمن بیطار،مفتی اعظم مصر شیخ محمد خاطر،اور سابق شیخ الازہر شیخ محمد الفحام دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔ ڈاکٹر عبد الحمید نے فرمایا:میں یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب کے زہد و تقوی،رفعت علم،اور اخلاص و للہیت ہی کے یہ آثار ہیں جو اس ادارہ میں نظر آرہے ہیں۔اور اسی کا ثمرہ ہے کہ فضلاء دارالعلوم تمام شہروں اور ملکوں میں کامیابی کے ساتھ منہمک و مصروف ہیں۔ان حضرات کے چند روز بعد علماء عرب کا ایک دوسرا وفد آیا جس میں شیخ یوسف السید ہاشم الرفاعی وزیر حکومت کویت،استاذ عبد الرحمن،مدیر ماہنامہ"البلاغ"کویت اور قطر کے شیخ عبد المعز عبد الستار اور ان کے ساتھ بطور نمائندہ شیخ شرف الدین تاشقندی بھی موجود تھے۔یوسف الرفاعی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ "عالم اسلام کو اس وقت زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔یہ چیلنج پہلے تو اسلام کے دشمنوں کی جانب سے تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اس دور کا ساتھ نہیں دے سکتا۔مگر آج مسلم نوجوان مستشرقین کی کتابوں کا مطالعہ کرکے شکوک و شبہات میں پھنس کر کہتے ہیں کہ اسلام عصر حاضر میں قیادت و رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔اس فکری چیلنج کےلئے علماء راسخین کی اشد ضرورت ہے ۔اسلام پر اعتراضات و اشکالات کے دفاع کے لئے ہم جلیل القدر علماء کے محتاج ہیں۔ہمیں حافظ ذہبی اور علامہ حافظ ابن حجر کے معیار کے علماء کی اشد ضرورت ہے۔ اور ہمیں فخر ہے کہ الحمداللہ اس درجہ کے علماء و فضلاء دارالعلوم دیوبند میں موجود ہیں۔ماہ رجب سن 1389 ھج میں عرب ممالک میں سے مراکش،الجزائر اور شرق اردن کے چند حضرات دارالعلوم تشریف لائے بعدہ مسجد نبوی کے اساتذہ حدیث و فقہ کچھ اس طرح دارالعلوم کا اعتراف کرتے ہیں۔ شیخ حامد البخاری فرماتے ہیں:دارالعلوم دیوبند ایک شجرہ طوبی ہے۔جسکی شاخیں پورے عالم اسلام میں پھیلی ہوئی ہیں ۔اور دارالعلوم کے فیض یافتہ علماء و فضلاء پوری دنیا میں دین اسلام کی روشنی پھیلا رہے ہیں ۔وہ مزید کہتے ہیں کہ میں بھی دارالعلوم دیوبند کا فیض یافتہ ہوں۔کیونکہ میرے دو اساتذہ دارالعلوم کے فاضل ہیں۔ مختصرا یہ ہے کہ دارالعلوم کی خدمات اور مقبولیت عالمی سطح پر کس قدر بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کا اندازہ ملکی وغیر ملکی مہمانوں کی آئے دن آمد سے اظہر من الشمس ہو جاتا ہے۔نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ علماء عرب دارالعلوم کو نہ صرف پہچانتے بلکہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر دارالعلوم دیوبند پر فخر و رشک بھی کرتے ہیں ۔حاصل کلام یہ کہ دارالعلوم دیوبند کو بین الاقوامی سطح پر شہرت و مقبولیت حاصل ہے۔ جس سے دوسری درسگاہیں تہی دامن ہے۔اس کے عالمی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا پاورفل ملک امریکہ اس کا نام سن کر کانپنے اور تھرانے لگتا ہے،اس کے تذکرے سے اس کا دل لرزہ خیزی کا منظر پیش کرنے لگتا ہے ۔ اس کے باوجود خانوادہ قاسمیہ کی پیشانی اس وقت عرق آلود ہوتی ہے جب کوئی اسکے دامن عفت کو چاک چاک کرنا چاہتا ہے۔چنانچہ اتنے عرصہ کے بعد لکھنئو شہر کے علمی گھرانے میں کونسا بھوت آیا،اور کونسا طوفان کھڑا کیا گیا،دل و دماغ کس کا کام کر رہا ہے،شازش کسنے رچی؟قوم کے لیڈروں،رہنماؤں،رہبروں اور علماء ربانین کے درمیان نفرت کی آگ لگا کر انکی ذات کو مجروح اور انکی علمی حیثیت کو خاکستر کرنا چاہتا ہے؟
کون ہے جو انکے مابین جنگ و بغاوت کا محاذ کھڑا کرنا چاہتا ہے؟ کون دینی درسگاہ کو رزمگاہ کی شکل دینا چاہتا ہے؟ کون اتحاد و اتفاق کا جانی دشمن ہے؟ کون علماء کرام کی عزت و ناموس اور قدر و منزلت کو سر بازار نیلام کرنے کی ناپاک کوشش میں لگا ہوا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مولانا سلمان ندوی صاحب معاندین اسلام کے ناپاک منصوبوں کا دندان شکن جواب دے کر اپنی پشت پناہی حاصل کرنے والوں کا آلہ کار بننے سے اپنے آپ کو بچا لیتے لیکن افسوس صد افسوس کہ ندوی صاحب غلط افکار و خیالات،تجربات و نظریات کے جال و پھندے میں خود پھنس کر قاسمی گھرانے سے وابستگی رکھنے والوں کی پیشانی پر جلدی نہ مٹنے والی لکیریں کھیچ دی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ندوی صاحب ایشیا کا عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کو ایک حلقہ کا ادارہ کہتے ہیں۔ تو ان سے میری عاجزانہ التماس ہے کہ ذرا اس تحریر کو بغور پڑھ لیں۔ ان شاء اللہ یہ تحریر آپ اور آپ جیسے تنگ نظری کے حامل شخص کےلئے دارالعلوم دیوبند  کی قدر و منزلت اور اہمیت و ضرورت کو سمجھنے و سمجھانے میں معین و مددگار ثابت ہوگی۔
آنکھیں ہوں اگر بند تو دن بھی رات ہے۔
اس میں بھلا کیا قصور ہے آفتاب کا ۔۔۔
 مہتمم جامعہ صدیقیہ دعوت القرآن صدیق نگر دھرم باڑی ضلع پورنیہ- 9661481615

 

Ads