Masarrat
Masarrat Urdu

ادبی دنیا میں جس طر ح کی بے ایمانیاں ہوئی ہیں ان کی گرفت ہونی چاہیے: پروفیسر ابو بکرعباد

  • 27 Sep 2025
  • مسرت ڈیسک
  • ادب
Thumb

دہلی کے کہنہ مشق اورجواں عمر قلمکاروں کا پانچ روزہ ادبی اجتما ع جاری

نئی دہلی۔27 ستمبر(مسرت ڈاٹ کام) اردو اکادمی دہلی کی اہم خدمات میں سے 'نئے پرانے چراغ' ہے جو لگاتار تیس برسو ں سے منعقد ہورہا ہے ۔اس پروگرام میں ہر سال پانچ سو سے زائد قلمکار شریک ہوکر اپنی تخلیقی ، تحقیقی و تنقیدی اور شاعری پیش کر تے ہیں ۔ روزانہ سو سے زائد افراد اپنی قلمی کاوشیں پیش کررہے ہیں ۔کل اس کا افتتاحی اجلاس اور پہلے دن کا مشاعر ہ منعقد ہوا ۔ دوسرے دن کا پہلا تنقیدی و تحقیقی اجلاس صبح دس بجے اکادمی کے آڈیٹوریم میں پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور پروفیسر ابو بکر عباد کی صدارت میں منعقد ہوا ۔

اس اجلاس میں دہلی کیتینوںاہم یونیورسٹیوں سے دس ریسر چ اسکالرز نے اپنے مقالات پیش کیے ۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شاہنواز فیاض نے کی۔ اس اجلاس میں محترمہ علیمہ نجمی نے ' 'اردو افسانے کی پہلی بے باک خاتو ن : رشید جہاں '' ، مناظر حسین نے ' 'خواجہ احمد عباس کی فلم اور ناول میرا نام جوکر کا تقابلی مطالعہ'' ، فیروز عالم نے'' انتظار حسین کا سفر نا مہ : حسین یادوں اور تہذیبوں کا آئینہ '' ، محمد سید رضا نے ''جینت پرمار : اردو ادب کا ایک دلت نظم نگار'' ، محمد طلحہ نے '' شارب ردولوی کی خود نوشت ' نہ ابتدا کی خبر ہے ' نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم ' کا ایک تنقیدی جائزہ ''، عبدالعلیم نے '' افسانہ بیزار آدم کے بیٹے کا تجزیہ '' ، ندیم باری نے ' ' اسیر لکھنوی کی ادبی خدمات : ایک اجمالی جائزہ '' ، محفوظ الرحمان نے '' کبیر کی شاعری میں مابعد الطبعیاتی عناصر '' ، محمد اسجد نے ' منور لکھنوی : بحیثیت سنسکرت اردو مترجم '' اور جناب عبدالوارث نے '' ناول' پنجر ' اور تقسیم ہند سے متاثر ہ عورتیں '' پر مقالات پیش کیے ۔

مقالات کے بعد سوالات و جوابات کا بھی سلسلہ جاری رہا ہے اس کے بعد صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابوبکر عباد نے کہا کہ علمی سمیناروں میں سوالات و جوابات ہونا صحت مند علمی ماحول کی دلیل ہے اس لیے اس کاجاری رہنا بہت ضروری ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سوالات کرنا بھول جائیں ۔ انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مقالات پر توصیفی تبصرے ہی کرتے رہیں اگر آج ہم نے بطور استاد آپ کی گرفت نہیں کی تو پھر زندگی بھر گرفت ہوتی رہے گی ۔ تمام مقالات پر فرداً فرداً گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں یونیورسٹیوں میں جس طر ح کی بے ایمانیاں ہوئی ہیں ان کی گرفت ہونی چاہیے لیکن ادب کے دائرے میں ۔ تحقیق و تنقید میں گرفت بہت ضروری ہے کیونکہ تحقیق میں کوئی کل نہیں ہمیشہ جز ہوتاہے ۔ مزید کہا کہ جتنے قاری ترقی پسندوں نے پیدا کیے اتنے قاری کسی اور تحریک یا رجحان نے نہیں پیدا کیے ۔ ان کے بعد دوسرے صدر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کی اردو اکادمی، دہلی نے بہت زیادہ تربیت کی ہے۔ یہاں کے پروگراموں کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ سنجیدگی اور علمیت ہر ایک ترتیب میں نظر آتی ہے اس لیے آپ نے دیکھا کہ کسی کو بھی وقت کے لیے ٹوکا نہیں گیا سبھی نے اپنا بھر پور مقالہ پیش کیا ہے ۔ یہاں ہمارے اساتذہ جب اپنا مقالہ پیش کرتے تھے تو ان پر بھی سوالات قائم ہوتے تھے اورجو سوالات کرتے تھے وہ ابھی اعلی عہدوں پر فائز ہیں ۔ انھوں نے تمام ریسرچ اسکالرز کو ان کے عمدہ مقالوں میں مبارکباد پیش کی ۔

ظہرانے کے بعد اس پانچ روزہ اجتماع کا پہلا تخلیقی اجلاس منعقد ہوا ، جس کی صدارت محترمہ نعیمہ جعفری پاشا اور ڈاکٹر ارشاد نیازی نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹرشاداب شمیم نے انجام دی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر عذرا نقوی نے ' تلاش نغمہ ' ، رخشندہ روحی نے ' بندرگاہ' ، ڈاکٹر شمع افرز زیدی نے ' خاکہ عراق رضا زیدی ' ، ڈاکٹر شعیب رضا خاں وارثی نے انشائیہ ' ادبی غیبت ماضی تاحال ' ، ڈاکٹر ذاکر فیضی نے ' ہر یا کی حیرانیا ں ' ڈاکٹر ابراہیم افسر نے انشائیہ ' کتابیں کچھ کہتی ہیں '، ڈاکٹر طاہر منظور نے 'لاحاصل ' تاج الدین محمد نے ' پیر صاحب کے حجرے میں ' ، ڈاکٹر محمد نظام الدین نے ' لمبی اڑان ' ، نشاط حسن نے ' بیربل' محترمہ صائمہ پروین نے ' دو جون کی روٹی ' ڈاکٹر محمد عرفان خان نے ' پرت در پرت زندگی ' شاہنواز نے ' یہی سچ ہے ' محترمہ عزہ معین نے ' بھولی ہوئی بات ' محترمہ نور فاطمہ نے ' قبرستان ' اور محترمہ سرتاج پروین شبینہ نے 'سیاہ رات ' کے عنوانات سے اپنے تخلیقا ت پیش کیں ۔

تخلیقات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشادنیازی نے کہا کہ اس مصنوعی ذہانت کے دور میں آپ تخلیق کررہے ہیں تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ہم ناقدین کو اگر کوئی بنیاد فراہم کرتا ہے تو وہ آپ ہیں اس لیے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ جس چیز کو جتنا وقت دیا جاتا ہے وہ چیز ان کی اتنی ہی ہوجاتی ہے اس لیے تخلیق کار جتنا تخلیق کو وقت دیں گے تخلیق کی منزل میں وہ اسی مرتبے پر فائز ہوںگے ۔ ڈاکٹر نعیمہ جعفر ی پاشا نے سبھی تخلیق کاروں کی تخلیقات پرفرداً فرداً فنی گفتگو کی ۔دوسرے دن کا تیسرااجلا س محفل و شعر سخن کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی صدرات استاد شاعر وقار مانوی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض فرید احمد فرید نے انجام دیے۔پرو گروام میں بطور خاص پروفیسر شاہ عالم، لئیق رضوی ، حبیب سیفی ، ڈاکٹر محمد مقیم ، مفتی نظر عالم ودیگر اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔

 

 

Ads