Masarrat
Masarrat Urdu

موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات نہ مفید ہیں اور نہ کسی نقصان کو روک سکتے ہیں، رہبر معظم

Thumb

تہران، 24 ستمبر (مسرت ڈاٹ کام) رہبر انقلاب اسلامی اس وقت ٹیلی ویژن پر ایرانی عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ یہ خطاب ملکی اور علاقائی حالات کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی اس وقت ٹیلی ویژن پر ایرانی عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ یہ خطاب ملکی اور علاقائی حالات کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آج ٹیلی ویژن پر ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے نئی تعلیمی سال کی آمد پر مبارکباد دی اور کہا کہ ماہِ مہر علم، دانش اور حرکت کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاکھوں نوجوان اور بچے تعلیم کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں اور یہ ایران کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔

رہبر انقلاب نے نوجوانوں کی علمی اور ورزشی کامیابیوں پر خاص طور پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ بین الاقوامی مقابلوں میں ایرانی طلبہ نے 40 میڈل جیتے، جن میں 11 طلائی تمغے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے عالمی اولمپیاڈِ نجوم میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جب کہ دیگر علمی شعبوں میں بھی نمایاں کارکردگی دکھائی۔ کھیلوں کے میدان میں بھی ایران کے نوجوانوں نے والی بال اور کشتی جیسے مقابلوں میں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

انہوں نے حکومتی ذمہ داران، خصوصاً وزارتِ تعلیم، وزارتِ علوم اور وزارتِ صحت کو نصیحت کی کہ وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اہمیت دیں اور انہیں مزید ترقی کے مواقع فراہم کریں۔

 خطاب کے آغاز میں انہوں نے سید حسن نصرالله کی رحلت پر اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصراللہ چلے گئے، لیکن وہ جو فکری و معنوی سرمایہ بنا کر گئے ہیں، وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔

12 روزہ جنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے اتحاد نے دشمن کو مایوس کردیا۔ دشمن کا مقصد صرف فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ملک میں بدامنی پھیلے، خاص طور پر تہران میں شورش ہو، اور لوگ سڑکوں پر آجائیں۔ لیکن عوام نے دشمن کے ایجنٹوں کی باتوں پر توجہ نہیں دی، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی انہیں روک دیا۔ یوں دشمن کی سازش ناکام ہوگئی۔

رہبر انقلاب نے زور دیا کہ اتحاد کا جذبہ اب بھی باقی ہے۔ کچھ لوگ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ اتحاد صرف جنگ کے دنوں تک محدود تھا، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے۔

انہوں نے یورینیم کی افزودگی کے بارے میں کہا کہ یہ صرف ایٹمی توانائی کا مسئلہ نہیں بلکہ زراعت، خوراک، صنعت، ماحولیات اور قدرتی وسائل جیسے کئی شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس موضوع پر ماہرین کو عوام سے بات کرنی چاہیے تاکہ لوگ اس کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہید سید حسن نصراللہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید حسن نصر اللہ اسلامی دنیا کے لئے عظیم سرمایہ تھے۔

ایرانی قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان دنوں، مجاہدِ کبیر شہید سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کے موقع پر، ان کی یاد تازہ کی جائے۔ سید حسن نصراللہ نہ صرف تشیع اور لبنان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یقینا یہ سرمایہ ضائع نہیں ہوا۔ وہ چلے گئے، لیکن جو سرمایہ انہوں نے پیدا کیا، وہ باقی ہے۔

رہبر انقلاب نے حزب اللہ لبنان کی جدوجہد کو ایک جاری داستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کی کہانی ایک مسلسل سلسلہ ہے۔ اسے کم نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس عظیم سرمایہ سے غفلت برتی جائے۔ یہ سرمایہ لبنان کے لیے بھی ہے اور لبنان سے باہر کے لیے بھی۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم یورینیم کی افزودگی کے لحاظ سے ایک بلند سطح پر ہیں۔ وہ ممالک جو ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے ہیں، افزودگی کو ۹۰ فیصد تک لے جاتے ہیں، لیکن چونکہ ہمیں ایٹمی ہتھیار کی ضرورت نہیں اور ہمارا فیصلہ بھی یہی ہے کہ ہم ایسا ہتھیار نہیں بنائیں گے، اس لیے ہم نے افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھایا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا فیصد ہے، اور ہمارے ملک کی بعض ضروریات کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس حد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں صرف 10 ممالک ایسے ہیں جو یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ایران ان دس میں شامل ہے۔ ان میں سے باقی نو ممالک کے پاس ایٹمی بم بھی ہیں، لیکن ایران واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم نہیں ہے، اور نہ ہی اسے بنانا چاہتا ہے۔ ہمارا ارادہ صرف سائنسی ترقی اور ملکی ضروریات کے لیے افزودہ کرنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے قوم سے خطاب میں کہا کہ سیاستدان امریکہ سے مذاکرات کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے مفید اور ضروری سمجھتے ہیں، کچھ اسے نقصان دہ کہتے ہیں، اور کچھ درمیانی رائے رکھتے ہیں۔ مختلف باتیں کی جاتی ہیں۔

میں وہ بات ملت عزیز ایران سے کہنا چاہتا ہوں جو میں نے ان برسوں میں خود دیکھی، سمجھی اور محسوس کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات نہ ہمارے لیے فائدہ مند ہیں، نہ ہی کوئی نقصان ہم سے دور کریں گے۔ یعنی یہ ایسا کام ہے جس میں نہ کوئی فائدہ ہے، نہ کوئی نقصان کا ازالہ بلکہ بالکل بے اثر ہے۔

یہ میں موجودہ حالات کے بارے میں بات کررہا ہوں ممکن ہے 20 یا 30 سال بعد حالات بدل جائیں، لیکن آج کی صورتحال میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ سے مذاکرات نہ صرف مفہد نہیں، بلکہ اس کے بڑے نقصانات بھی ہیں۔ بعض نقصانات تو ایسے ہیں کہ شاید ان کی تلافی ممکن نہ ہو۔ میں ان نقصانات کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات ہمارے لیے فائدہ مند نہیں کیونکہ امریکہ پہلے ہی سے مذاکرات کا نتیجہ طے کرچکا ہے۔ وہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صرف ایسے مذاکرات کو قبول کریں گے جن کا نتیجہ ایران میں ایٹمی سرگرمیوں اور یورینیم کی افزودگی کو بند کرنا ہو۔ یہ مذاکرات نہیں، بلکہ ایک طرح کی زبردستی ہے۔ اور ایسی زبردستی کا کوئی فائدہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب مذاکرات کی پیشکش دھمکیوں کے ساتھ ہو، تو کوئی باعزت قوم ایسی بات کو قبول نہیں کرتی۔ اگر کوئی فریق یہ کہے کہ اگر مذاکرات نہ کیے تو ہم بمباری کریں گے یا کوئی اور اقدام کریں تو یہ دراصل مذاکرات نہیں بلکہ زبردستی ہے۔ اگر ہم ایسی دھمکیوں کے تحت مذاکرات کریں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ہر دھمکی سے فورا ڈر جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں اور سامنے والے کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ یہ رویہ ایران اسلامی کے شایان شان نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک بار ہم دھمکیوں کے آگے جھک گئے، تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آج وہ کہتے ہیں کہ اگر افزودگی جاری رکھی تو ہم ایسا کریں گے، کل کہیں گے اگر میزائل رکھے تو ہم ویسا کریں گے، پھر کہیں گے اگر فلاں ملک سے تعلقات نہ رکھے تو ہم کچھ کریں گے، یا اگر تعلقات رکھے تو ہم کچھ اور کریں گے۔

Ads