Masarrat
Masarrat Urdu

مسرور جہاں کی زندگی تحریروں کی طرح ہی عاجزی و انکساری سے عبارت تھی: صبوحی

  • 21 Sep 2025
  • مسرت ڈیسک
  • ادب
Thumb

’افسانہ ہوئی شام‘ میں بیگم مسرور جہاں کے افسانوں کی پیشکش

نئی دہلی، 21 ستمبر (مسرت ڈاٹ کام) اردو کی ممتاز افسانہ نگار بیگم مسرور جہاں کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کی یاد میں ایک خصوصی پروگرام ’افسانہ ہوئی شام‘ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام سنچاری (دہلی چیپٹر) کے زیر اہتمام اور وِنگز کلچرل سوسائٹی کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ یہ اطلاع پریس کے لیے جاری ایک ریلیز میں دی گئی۔

اس نشست میں مسرور جہاں کے فن اور شخصیت کو یاد کیا گیا اور ان کی تین اہم کہانیاں سامعین کے سامنے پیش کی گئیں۔ پہلی کہانی تھی، ’کنجی‘ جس کی ڈرامائی قرات سائرا مجتبیٰ نے کیا۔ یہ افسانہ ہم جنس پرستی اور بائی سیکشوالیٹی جیسے حساس موضوع کو نہایت جرات مندی سے بیان کرتا ہے۔ سامعین نے اس کہانی کو غیر معمولی توجہ اور پذیرائی دی۔ دوسری کہانی تھی ’لٹیرا‘ جس کی ڈرامائی قرات معروف آرٹسٹ سنیتا سنگھ نے کیا۔ یہ کہانی ازدواجی زیادتی (Marital Rape) جیسے مسئلے پر مبنی ہے جو ہمارے معاشرے میں اب تک ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے، اس پر اسی کی دہائی میں مسرور جہاں نے افسانہ لکھ کر لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ سنیتا سنگھ نے بیک وقت میزبان اور فنکار ہونے کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اس کہانی کو پراثر انداز میں پڑھا۔ تیسری کہانی تھی ’جلاوطنی‘ اس افسانے کو طارق حمید نے ڈرامائی انداز میں پڑھا۔ یہ کہانی مہاجر مزدوروں کی حالتِ زار پر مبنی ہے، اس کی پیشکش نے حاضرین کو بے حد متاثر کیا۔

بیگم مسرور جہاں کی صاحبزادی صبوحی نے اس موقع پر اپنی والدہ کے ساتھ وابستہ چند یادیں بھی بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ اماں کی زندگی کی سب سے بڑی پہچان لکھنا پڑھنا تھا۔ اگر دس منٹ کا بھی وقفہ ملتا تو وہ فوراً کوئی کتاب کھول لیتیں یا قلم اٹھا کر کچھ لکھنا شروع کر دیتیں۔ وہ کہا کرتی تھیں: لکھنا پڑھنا میرا مقصد نہیں، میری زندگی ہے۔" صبوحی نے مزید کہا کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ اماں کا افسانوی مجموعہ ’خواب در خواب سفر‘ پڑھا تو کہانی نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ بے ساختہ ماں کے کمرے میں گئیں، ان کا ماتھا چوما اور روتے ہوئے کہا کہ "امی! آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہیں؟" جس پر مسرور جہاں نے مسکرا کر عاجزی سے جواب دیا "اچھا نہیں، بس ٹھیک ٹھاک لکھ لیتی ہوں۔" یہی عاجزی اور انکساری، صبوحی کے مطابق، ان کی والدہ کی شخصیت اور ان کی تحریروں کا سب سے نمایاں وصف تھا۔ بیگم مسرور جہاں کی نواسی سائرہ مجتبٰی نے افتتاحی گفتگو میں کہا کہ جب تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میرا داخلہ نہیں ہوا تھا تو میں نانی اماں کو یوں ہی ایک مصنفہ سمجھتی تھی لیکن جب یہاں آئیں اور کئی پروفیسرز نے حیرت سے کہا کہ واقعی تم مسرور جہاں کی نواسی ہو؟ اور جب ان کو یقین دلاتی تو ان کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار اور عزت کو صاف محسوس کر پاتی تھی۔ وہ نانی اماں کے حوالے سے مجھ سے پوچھتے رہتے تو نانی اماں کی مقبولیت کا احساس ہوا۔ آج کی محفل ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ایک معمولی سی کوشش ہے۔

پروگرام میں ادبی اور سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات نے شرکت کی۔ ان میں نمایاں نام شامل ہیں، زہرا نقوی، دپالی تنیجا، بریگیڈیئر برجیش پانڈے بمعہ اہلیہ وجے لکشمی پانڈے، کنوپریا اگروال، ڈاکٹر شاہد حبیب، بشریٰ علوی رزاق، شبانہ رحمن، اطہر سعید، صابر اور سدھا، پرتیمہ ویرندر سنگھ (وزارتِ اطلاعات و نشریات کی سینئر افسر)، یمن حسین (سماجی کارکن اور ایم پی محمد جاوید کی اہلیہ)، ستبیر چڈھا اور کئی دیگر اہم شخصیات۔ اس موقع پر سائرا مجتبیٰ نے معروف ادبی شخصیت جمیل گلریز کا بطورِ خاص شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہی کی سرپرستی نے انہیں اور دیگر فنکاروں کو ڈرامائی انداز میں افسانے پڑھنے کا حوصلہ دیا۔ کیونکہ جمیل گلریز صاحب نے ہی 2017 میں لکھنؤ کی ایک محفل میں بیگم مسرور جہاں کا افسانہ ’میاں کی حویلی‘ پیش کیا تھا، جس میں خود بیگم مسرور جہاں بھی موجود تھیں۔ شہر کے اشرافیہ کی بھرپور موجودگی سے ہال اپنی تنگ دامنی کی شکایت کر رہا تھا اور ان کے تاثرات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ بیگم مسرور جہاں اپنی تحریروں کے ذریعے آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی تخلیقات نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ ادب صرف تفریح نہیں بلکہ معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کا ایک طاقتور وسیلہ بھی ہے۔

 

Ads