تہران،13 جولائی (مسرت ڈاٹ کام) وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایران میں مقیم دیگر ممالک کے سفیروں، ناظم الاموروں اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے درمیان تعاون منقطع نہیں ہوا ہے بلکہ حالات کی وجہ سے اس میں تبدیلی آئی ہے اور پارلیمنٹ میں پاس شدہ بل کے مطابق، ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان تمام سرگرمیاں، اعلی قومی سلامتی کونسل کے ذریعے انجام پائیں گی۔
اس نشست میں آئی اے ای اے میں پاکستان کے سابق سفیر علی سرور نقوی، پاکستان کے سابق نائب وزیر دفاع خالد نعیم لودھی، آئی آر ایس کے سربراہ سلیم جوہر اور اس مرکز کی ایران اسٹڈیز کے سربراہ فراز نقوی نے اس نشست میں شرکت کی جبکہ ڈاکٹر سمیہ مروّتی نے مغربی ایشیا کے اسٹریٹیجک مطالعاتی مرکز کے آفپاک اسٹڈیز گروپ کے نمائندے کے طور پر اور ایران کی اوپن یونیورسٹی کی پروفیسر ویدا یاقوتی نے ایران سے ان اجلاس میں شرکت کی۔
اس موقع پر کانفرنس کے شرکا نے خطے میں کشیدگی پھیلانے اور تہران اور واشنگٹن کے مذاکراتی عمل کو تباہ کرنے میں صیہونی حکومت کے مرکزی کردار پر روشنی ڈالی اور مستقبل میں ان جھڑپوں کی جنوبی ایشیا تک پھیل جانے کی جانب سے تشویش ظاہر کی۔
اس موقع پر آئی آر ایس کے سربراہ سلیم جوہر نے بتایا کہ ٹرمپ کو صیہونی لابی کی حمایت کی ضرورت ہے اسی لیے انہوں نے ایران پر صیہونی حکومت کی جارحیت اور ایران کے ساتھ جنگ میں داخل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔
انہوں نے کہا کہ جارح قوتیں ایران کو اندرونی طور پر کمزور اور علاقے میں تہران کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا چاہتی تھیں لیکن تل ابیب اور واشنگٹن اس اسٹریٹیجک ہدف کے حصول میں ناکام ہوگئے۔
جنرل خالد نعیم نے اس موقع پر کہا کہ مغربی ایشیا میں جنگوں کا ایک واضح ہدف یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے اور امریکہ اور صیہونی حکومت اپنے طویل المدت اہداف میں اس موضوع پر زور دیتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت نے جھوٹے دعووں اور غلط معلومات کی بنیاد پر ایران پر حملہ کیا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی جوابی کارروائی حیرتناک تھی اور دنیا نے ایران کی دفاعی صلاحیتوں اور گہرائی کا بخوبی مشاہدہ کرلیا۔
پاکستان کے سابق نائب وزیر دفاع جنرل خالد نعیم نے کہا کہ ایران نے صیہونی حکومت کو حملے کا اصلی مزہ چکھا دیا اور تل ابیب اتنا کمزور پڑ گیا کہ امریکہ جنگ میں مداخلت پر مجبور ہوگیا۔
آئی اے ای اے میں پاکستان کے سابق مندوب علی سرور نقوی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت نے ہمیشہ ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی بار ایرانی سائنسدانوں کو قتل اور سائبر حملوں کا ارتکاب کیا ہے لیکن آٹھ سالہ جنگ کی طرح اس بار بھی ایران نے صیہونی حکومت اور امریکہ کو شکست سے ہمکنار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اور نتن یاہو کی توقع کے برخلاف، ایران کی فوجی صلاحیت بھی باقی رہی اور عوام نے بھی اپنے نظام کے ساتھ رہنا پسند کیا۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ صیہونی حکومت کو اس بات کا حق حاصل ہی نہیں کہ ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے محروم کرے جبکہ تہران کو اپنے ایٹمی پروگراموں کو آگے بڑھانے کا مکمل حق حاصل ہے۔
ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان تعاون، ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے ذریعے انجام پائے گا: عراقچی
تہران/ ارنا- وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایران میں مقیم دیگر ممالک کے سفیروں، ناظم الاموروں اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں کہاک ہ اس وقت ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے درمیان تعاون منقطع نہیں ہوا ہے بلکہ حالات کی وجہ سے اس میں تبدیلی آئی ہے اور پارلیمنٹ میں پاس شدہ بل کے مطابق، ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان تمام سرگرمیاں، اعلی قومی سلامتی کونسل کے ذریعے انجام پائیں گی۔
انہوں نے اس موقع پر ان ممالک پر تنقید کی جنہوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کے غیرقانونی حملوں اور کھلی جارحیت کی مذمت سے گریز کیا ہے اور کہا کہ جبکہ ناوابستہ تحریک، اسلامی تعاون تنظیم، خلیج فارس تعاون کونسل، عرب لیگ، برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم اور اس سے ہٹ کر 120 ممالک نے الگ الگ اس جارحیت کی مذمت کی، لیکن توقع کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکہ کی مخالفت کے نتیجے میں اس غیرقانونی حرکت پر اپنی ناراضگی تک ظاہر نہیں کی حالانکہ یہ ادارہ عالمی امن و سلامتی کے لیے ذمہ دار ہے۔
وزیر خارجہ نے آئی اے ای اے اور اس عالمی ادارے کے سربراہ کی جانب سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو سنجیدہ نقصان لاحق ہوا لیکن اس سے بڑا وار، ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدہ اور بین الاقوامی حقوق و اصول پر کیا گیا جو کہ ناقابل تلافی ہے۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان تعاون ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس میں تبدیلیاں آئی ہیں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کی پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق، اگلی اطلاع تک ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے درمیان تعاون ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے ذریعے انجام پائے گا اور ایجنسی کی ہر درخواست کا الگ الگ اور ایران کے مفادات کے مطابق جائزہ لیکر جواب دیا جائے گا۔
وزیر خارجہ نے ایران میں تعینات سفیروں سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب دیا۔
انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف یورپ کی جانب سے اسنیپ بیک مکینزم کو فعال کرنے کی وجوہات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یورپی ٹرائیکا نے گزشتہ چند مہینے کے دوران بالخصوص گزشتہ دنوں اس جانب اشارہ کیا جس کا مقصد سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کو منسوخ کرنا اور ماضی کی قراردادوں کو ایران کے خلاف نافذ کرنا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ یورپ کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوگی اور اس کا موازنہ ایران کے ایٹمی تنصیبات پر امریکہ کے حملے سے کیا جا سکتا ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایسی کسی بھی حرکت کی صورت میں ایران کا ایٹمی مسئلہ مزید پیچیدہ اور اس کا حل اور بھی مشکل ہوجائے گا۔
وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا نہ کوئی فوجی راہ حل ہے نہ ہی سلامتی کونسل میں اس موضوع کو داخل کرکے اسے ختم کرنا ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاملات کو حل کرنے کا واحدہ طریقہ مذاکرات ہیں اور وہ بھی ایسے مذاکرات جس میں ایرانی عوام کے مفادات کی ضمانت فراہم ہوسکے بالخصوص ایٹمی حقوق اور اس کے تحت افزودگی کے حق کو یقینی بنایا جاسکے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن ہونے کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لیے اب بھی مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے جس طرح پہلے بھی کھلا تھا لیکن ایران کسی بھی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کرے گا جس میں ایران کے حق افزودگی کو نظرانداز کیا گیا ہو۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یورینیم کی افزودگی ایرانی سائنسدانوں کی ان تھک محنتوں کا نتیجہ اور ایک بڑی سائنسی کامیابی ہے جس کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس بڑی کامیابی کے لیے مجاہدتیں کی گئی ہیں اور بڑی قربانیاں پیش کی جا چکی ہیں اور گزشتہ دنوں ہم سے اس حق کو چھیننے کے لیے جنگ مسلط کی گئی اور ہم نے اپنے اس حق کو محفوظ کرنے کے لیے ڈٹ کر اپنا دفاع کیا۔
سید عباس عراقچی نے زور دیکر کہا کہ آئندہ کسی بھی مذاکرات کا محور صرف اور صرف ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن رہنے کے مقابل پابندیوں کے خاتمے پر ہوگا اور کسی بھی دوسرے معاملے بالخصوص فوجی اور دفاعی صلاحیتوں پر ہرگز گفتگو نہیں کی جائے گی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ صلاحیتیں ایرانی عوام کے دفاع کے لیے ہیں جن کی افادیت اس جنگ میں ثابت ہوگئی۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ فوجی جارحیت کی ناکامی سے ثابت ہوگیا کہ ایرانی عوام سے ٹیکنالوجی، ایٹمی سائنس اور اس کے دیگر حقوق کو چھیننا ناممکن ہے۔
وزیر خارجہ نے ممکنہ ایٹمی مذاکرات کے وقت، جگہ، ڈھانچے، سلسلے اور ضمانتوں کے بارے میں بتایا کہ اس وقت ان موضوعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تہران کو کوئی جلدی نہیں ہے لیکن ایران کے عوام کے مفادات اور اہداف کے حصول کے لیے کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ سفارتکاری کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور اگر موقع فراہم ہوا تو ہم اس سلسلہ کو پوری باریک بینی، سوجھ بوجھ اور خوداعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جنگ کے میدان میں ہم نے استقامت کا شاندار نمونہ پیش کرکے بڑی کامیابی حاصل کی اور یہ بات کسی پر بھی پوشیدہ نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران ہی اس جنگ میں جیتے ہیں اور جو کامیاب ہوتا ہے اسے مذاکرات سے کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ میدان جنگ کی طرح مذاکرات کے میدان میں بھی اس کی کامیابی حتمی ہوتی ہے۔