Masarrat
Masarrat Urdu

نتن یاہو کا دفتر چار ماہ کے لیے بند، ایرانی میزائل حملے میں شدید متاثر، مرمت کا آغاز

  • 11 Jul 2025
  • مسرت ڈیسک
  • دنیا
Thumb

تہران، 11 جولائی (مسرت ڈاٹ کام) ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی میزائل حملوں میں صہیونی وزیراعظم کے دفتر کو شدید نقصان کے بعد 4 مہینے کے لئے بند کردیا گیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی جانب سے اسرائیل کے حساس اہداف پر کیے گئے میزائل حملوں کو کئی ہفتے گزرنے کے بعد بالاخر اسرائیلی حکام نے ان حملوں کی تصدیق کی ہے جس میں خاص طور پر وزیراعظم نتن یاہو کے دفتر پر بھی حملہ شامل ہے۔ باخبر ذرائع نے کہا کہ جنگ کے دوسرے دن کے رات ایک راکٹ نے دفتر وزیراعظم کے قریب واقع داوینچی ٹاورز کو نشانہ بنایا تھا۔ حملے میں نقصان پہنچنے کے بعد نتن یاہو کا دفتر چار ماہ کے لیے بند کیا گیا ہے تاکہ اس کی مکمل طور پر مرمت کی جائے۔

عبرانی ویب سائٹ "حدشوت بزمان" اور "واللا" بے بھی تصدیق کی ہے کہ کریا میں واقع نتن یاہو کا دفتر جو 60 سال پرانا "خانه شیمون پرز" کہلاتا ہے، کو انفراسٹرکچر کی مرمت کے لیے بند کیا گیا ہے۔ مرمت کا کام 3 سے 4 ماہ جاری رہے گا، جس دوران نتانیاهو اپنے امور بیت المقدس میں اپنے دفتر سے چلائیں گے۔

برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ایران نے پچھلے ماہ اسرائیل کے متعدد فوجی ٹھکانوں پر ہوائی حملے کیے اور انہیں نقصان پہنچایا۔

برطانوی اخبار "دی ٹیلی گراف" نے بھی اطلاع دی ہے کہ پانچ اسرائیلی فوجی اڈے ایرانی حملوں کی زد میں آئے، جن میں تل نوف اور گلیوت کیمپ شامل ہیں۔

فرانس 24 کے اسرائیل میں تعینات نمائندے نے ایرانی میزائل حملوں کے اثرات پر رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی شہری ایرانی میزائلوں کی طاقت اور ان سے ہونے والی تباہی پر حیران رہ گئے۔ حملوں کی مسلسل تکرار اور ہر شب دہرایا جانا اسرائیلیوں کے لیے نہایت اذیت ناک ثابت ہوا۔ یہ صرف ایک بار کا حملہ نہیں تھا بلکہ ایک تسلسل تھا جس نے اسرائیلی معاشرے پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب کیے۔ رپورٹر نے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر بتایا کہ جسمانی اور ذہنی تھکن روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور اس کا اثر عوامی مورال اور عمومی فضا پر نمایاں محسوس کیا جا رہا تھا۔

بھاری نقصانات کی وجہ سے عالمی سطح پر صہیونی حکومت کی شرمندگی میں اضافہ ہورہا تھا اور اسرائیل کے اندر بھی عوامی سطح پر بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ اسی وجہ سے صہیونی حکومت نے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی اور تباہی کے مناظر دکھانے سے روکنے کی پوری کوشش کی۔ اسرائیلی چینل 13 کے معروف رپورٹر راویو دروکر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر لکھا کہ حالیہ جنگ کے دوران جن مقامات کو ایرانی میزائلوں نے نشانہ بنایا، ان کی فلم بندی سے اسے پولیس نے روک دیا اور دھمکیاں بھی دیں۔ جب اس نے اپنا پریس کارڈ دکھایا تو ان کا لہجہ نرم ہوا، مگر کہا گیا کہ فلم برداری ممنوع ہے کیونکہ سنسر اجازت نہیں دیتا۔ جب اس نے سوال کیا کہ پولیس کو یہ ہدایات سنسرشپ سے کب ملتی ہیں، تو وہ خاموش ہو گئے اور کہا کہ یہاں سے چلے جائیں۔

دروکر نے لکھا کہ جب اس نے برطانوی اخبار دی ٹیلیگراف میں پانچ اسرائیلی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائلوں کے حملے کی خبر پڑھی تو اسے یاد آیا کہ ان میں سے ایک بیس وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔

انہوں نے نتن یاہو حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنسرشپ قومی سلامتی کے لیے نہیں تھی، بلکہ کامیابی کے جھوٹے دعوے کو بچانے کے لیے تھی۔ یہ اقدام ایرانیوں کو حقائق سے روکنے کے لیے نہیں تھا، کیونکہ ایرانی تو خود جانتے ہیں کہ انہوں نے کہاں ضرب لگائی ہے، بلکہ یہ اسرائیلی عوام کو اپنے نقصانات سے بےخبر رکھنے کی کوشش تھی۔

اسی دوران امریکی فوج کے سابق کرنل ڈگلس میک‌گرگر نے کہا کہ جنگ بندی کا مطالبہ ایران کی جانب سے نہیں بلکہ خود اسرائیل کی کمزوری کے باعث تھا۔ اسرائیل کے اندر ایرانی فوجی طاقت کا سامنا کرنے کی سکت نہیں تھی اسی لئے اس نے جلد ہی امریکہ سے مدد مانگی۔ اسرائیلی حکام نے بھی اپنی دفاعی کمزوری کو تسلیم کیا ہے۔

ادھر سعودی چینل العربیہ نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے ایرانی میزائل حملوں سے متاثرہ کئی اہم مقامات کو خفیہ رکھا ہے، حالانکہ کم از کم پانچ اسٹریٹیجک فوجی اڈے براہ راست نشانہ بنے۔

پینٹاگون کے سابق انٹیلیجنس افسر اسکات ریٹر نے اس حوالے سے کہا کہ ایران ایک قدیم سرزمین ہے جس کی تہذیب تین ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ ایران وہ ملک نہیں جو دباؤ میں آ کر جھک جائے۔ اس بار ایران نے پہلے سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا اور حملوں کی تعداد اسرائیلی بیانات سے کہیں زیادہ ہے۔

اسی طرح معروف عرب دانشور رفیق نصراللہ نے کہا کہ میرا ایرانیوں سے کوئی ذاتی تعلق نہیں، نہ ہی میں ان کی سفارت کو جانتا ہوں، مگر وقت آ گیا ہے کہ سچ بولا جائے۔ بہت سے لوگ ایرانی میزائل حملوں سے نئی زندگی پاتے محسوس ہوئے۔ 1948ء سے آج تک کسی طیارے کو جرات نہیں ہوئی تھی کہ تل ابیب پر پرواز کرے، کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ اسے بمباری کا نشانہ بنائے۔ مگر ایرانیوں نے یہ کر دکھایا، اور عرب دنیا کی ناتوانی کو بےنقاب کر دیا۔

Ads