جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جائمالیہ باغچی کی جز وقتی بنچ نے کانگریس اور کچھ رضاکار تنظیموں سمیت مختلف فریقوں کی طرف سے دائر درخواست پر یہ ہدایت دی۔عدالت عظمیٰ نے معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 28 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے اور الیکشن کمیشن کو اس سے ایک ہفتہ قبل حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ہے۔ متعلقہ فریقوں کے دلائل کو تفصیل سے سننے کے بعد بنچ نے کہا کہ "مقدمے کی سماعت ضروری ہے۔ اسے 28 جولائی کو مناسب بنچ کے سامنے درج فہرست کیا جائے۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے یعنی 21 جولائی کو حلف نامہ داخل کیا جائے۔"
سماعت کے دوران بنچ نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو قابل قبول دستاویزات کے بطور منظوری دینے پر غور کرے تاکہ بہار میں آنے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی (ایس آئی آر) میں ووٹروں کی شناخت ثابت ہو سکے۔ تاہم، عدالت نے درخواست گزاروں کی جانب سے خصوصی نظر ثانی پر عبوری روک لگانے کے مطالبے پر کوئی عبوری حکم امتناعی نہیں دیا۔ تاہم، عدالت نے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ وہ شناخت ثابت کرنے کے دستاویز کے طور پر آدھار کو کیسے مسترد کر سکتا ہے۔
بنچ نے یہ بھی کہا کہ خصوصی نظرثانی کی کارروائی کو مکمل کرنے کی مدت بہت کم ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں غور کرنے کے لیے تین بنیادی سوالات طے کیے، جن میں خصوصی نظر ثانی کے طریقہ کار کے لیے الیکشن کمیشن کے اختیارات، اختیارات کو بروئے کار لانے کا طرز عمل اور نظر ثانی کی ٹائم لائن سے متعلق سوالات شامل ہیں۔ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 24 جون کو جاری کردہ حکم نامے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں عدالت عظمیٰ سے اس نظرثانی کو ناقابل عمل اور من مانی قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار) کی سپریا سولے، کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ، شیو سینا (یو بی ٹی) کے اروند ساونت، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے رکن پارلیمنٹ سرفراز احمد اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے دیپانکر بھٹاچاریہ نے عرضیاں دائر کی ہیں۔ اسی طرح، غیر سرکاری تنظیموں - ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس، پی یو سی ایل، سماجی کارکن یوگیندر یادو اور دیگر نے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی ہیں۔الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 14، 19، 21، 325 اور 326 کے ساتھ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 اور ووٹر رجسٹریشن کے اصول 1960 کے ضابطہ 21 اے کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس حکم نامے پر حکم امتناع نہیں لگایا جائے، تو اس من مانی اقدام میں مناسب عمل کی پیروی نہ ہونے سے لاکھوں ووٹر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اس سے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات متاثر ہوں گے اور جمہوریت کمزور ہو سکتی ہے۔