حکومت نے اس کے جواب میں ایک ابتدائی جوابی حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں ان مقدمات میں کسی بھی عبوری ریلیف کی سختی سے مخالفت کی گئی ہے۔ اس نے پہلے کی مثالوں خصوصاً وقف ایکٹ 1995 کے ساتھ ساتھ اس کی 2013 کی ترامیم کو چیلنج کرنے والے مقدمات کا حوالہ دیا۔ ان معاملات میں جنہیں ”اصل درخواستیں،، کہا جاتا ہے ، متعدد چیلنج کیے گئے لیکن عدالتوں کی جانب سے کبھی کوئی عبوری روک نہیں دی گئی۔ یہ یادرکھنا بھی ضروری ہے کہ ان میں سے بہت سی درخواستیں اب بھی مختلف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور بغیر کسی عبوری ریلیف کے جاری ہیں۔
اپریل 2022 میں سپریم کورٹ کی طرف سے کیے گئے ایک اہم مشاہدے کو اجاگر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ اس وقت جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے کہا تھا کہ کسی قانون کی آئینی حیثیت کو خالصتاً نظریاتی یا تجریدی انداز میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ محض ایک علمی مشق بن جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس طرح کے چیلنج پر غور کرنے کے لئے ایک حقیقی متاثر فریق اور دعویٰ کی حمایت کرنے والے مخصوص حقائق کا ہونا ضروری ہے۔
حکومت نے اس نظیر اور ماضی میں اسی طرح کے مقدمات سے نمٹنے کی بنیاد پرعدلیہ پر زور دیا ہے کہ وہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے موجودہ سیٹ میں عبوری ریلیف نہ دے کر مستقل مزاجی اور نظم و ضبط برقرار رکھے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ قانون کی درستگی کا کوئی بھی امتحان سپریم کورٹ کے پہلے سے قائم کردہ عدالتی اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تجریدی خدشات کے بجائے ٹھوس حقائق اور حقیقی شکایات پر مبنی ہونا چاہیے۔