مسٹر گاندھی نے بدھ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کانگریس کی طرف سے چلائی گئی سنجیدہ مہم کے دباؤ میں کیا ہے اور اس کا فیصلہ درست ہے اور کانگریس اس کی حمایت کرتی ہے۔ یہ درست فیصلہ ہے اور وہ حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ذات پات کی گنتی پہلا قدم ہے۔ اس بارے میں صحیح سوالات پوچھے جانے چاہئیں اور یہ مردم شماری افسر شاہی کے رویے سے نہیں بلکہ عوام کے درمیان جا کر کی جانی چاہیے۔ ذات پات کی مردم شماری کے لیے حکومت نے تلنگانہ میں جو ماڈل اپنایا ہے اسے مرکزی حکومت کو بھی اپنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ذات پات کی مردم شماری کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی تھی اور ہماری مہم کا اثر یہ ہے کہ اس کے دباؤ میں حکومت نے یہ فیصلہ کیا اور ہم اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، حکومت نے ذات پات کی مردم شماری کے ہمارے وژن کو تسلیم کیا ہے لیکن اب اسے یہ کام کب کرے گی اس کے حوالے سے بھی وقت بتانا ہوگا۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہم ذات پات کی مردم شماری کراکر رہیں گے اور ریزرویشن کی 50 فیصد کی حد کو ختم کریں گے۔ ایک بار جب ذات کی بنیاد پر آبادی معلوم ہو جائے تو اسی بنیاد پر ترقی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے مزدوروں، قبائلیوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔
اس کی بنیاد پر مزدوروں، قبائلیوں، دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔