Masarrat
Masarrat Urdu

وقف قانون تفریق پر مبنی اور مذہبی آزادی کے منافی ، مسلم پرسنل بورڈ نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا

Thumb

نئی دہلی، 7 اپریل (مسرت ڈاٹ کام)پارلیمنٹ سے منظور شدہ وقف قانون پر مسلم پرسنل لا بورڈ کی عرضی کل رات  عدالت عظمی داخل میں داخل کردی گئی۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے پریس کو بتایا کہ مسلم پرسنل بورڈ نے اپنے پٹیشن میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ ترمیمات پر سخت اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے من مانی اور امتیاز و تفریق پر مبنی قرار دیا۔  بورڈ نے کہا کہ یہ ترمیمات نہ صرف دستور ہند کے فراہم کردہ بنیادی حقوق دفعہ 25 اور 26 سے متصادم ہیں بلکہ ان ترمیمات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت مسلم اقلیت کو وقف کے انتظام و انصرام سے بے دخل کرکے اس کا سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔
جاری ریلیز کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے اس پٹیشن کو مرتب کیا اور بورڈ کی جانب سے اس کیس کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایڈوکیٹ طلحہ عبدالرحمن ہیں۔۔بورڈ کی جانب سے یہ پٹیشن جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی کی جانب سے دائر کی گئی۔
پٹیشن میں آگے کہا گیاکہ ملک کے دستور کی بنیادی حقوق کی دفعہ 25 اور 26 ملک کی ہر مذہبی اکائی کو ضمیر کی آزادی کے علاوہ اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی بھی فراہم کرتی ہے، مزید برآن مذہبی و فلاحی کاموں کے لئے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کا اختیار بھی دیتی ہیں۔ موجودہ منظور شدہ قانوں میں مسلمانوں کو اپنے اس بنیادی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے تشکیل کے تعلق سے کی گئیں ترمیمات اس کا منہہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی طرح واقف پر 5  سال تک باعمل مسلمان ہونے کی تحدید نہ صرف ملکی قانوں اور دستور کی دفعہ 25 کے خلاف ہے بلکہ شریعت سے بھی متصادم ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے مزید کہا کہ پٹیشن میں اس  قانون کو امتیاز اور تفریق پر مبنی اور دستورکی دفعہ 25سے متصادم قرار دیا گیا۔ جو حقوق و تحفظات دیگر مذہبی اکائیوں، جیسے ھندو، سکھ، عیسائی، جین اور بودھوں کے اوقاف کو حاصل ہیں ان سے مسلم اوقاف کو محروم کردیا گیا۔ پرسنل بورڈ نے عدالت عظمی سے درخواست کی کہ دستوری حقوق کے محافظ  ہونے کے ناطے وہ ان متنازعہ ترمیمات کی منسوخی کا فیصلہ دے کر دستور کی عظمت کو بحال کرے اور مسلم اقلیت کے حقوق کو پامال ہونے سے روکے۔

Ads