Masarrat
Masarrat Urdu

محمد علی شبّیر وقف بل کو سپریم کورٹ میں کریں چیلنج گے۔ آئی ایم سی آر قائدین سے ملاقات کے بعد اعلان

  • 06 Apr 2025
  • مسرت ڈیسک
  • مذہب
Thumb

 

نئی دہلی، 6 اپریل (مسرت ڈاٹ کام) کانگریس کے سینئر رہنما اور حکومت تلنگانہ کے مشیر محمد علی شبّیر نے دارالحکومت دہلی میں انڈین مسلمس فار سول رائٹس (آئی ۔ایم۔سی آر) کے قائدین سے ملاقات کی۔  ملاقات کے دوران مرکزی حکومت کے حالیہ متنازعہ قانون وقف ترمیمی بل  2025 کے مختلف نکات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ گفتگو کے بعد آج پریس کے لیے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی عدالت عظمیٰ میں متنازعہ وقف ترمیمی قانون  کے خلاف عرضی داخل کریں گے۔

مسٹر محمد علی شبّیر نے بتایا کہ سابق مرکزی وزیر اور معروف ماہر قانون سلمان خورشید صاحب اور آئی ایم سی آر کے چیئر مین و سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب صاحب سے متنازعہ بل کے تمام نکات اور مسلم قوم کے ساتھ خود کو سیکولر  بتانے والے لیڈران کی دھوکہ دہی کی سبب ناراضگی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اس دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ محمد علی شبّیر جلد ہی پٹیشن کا ڈرافٹ تیار کرکے عدالت عظمیٰ میں متنازعہ قانون کو چیلنج کریں گے۔ یاد رہے کہ متنازعہ قانون پارلیمنٹ کے دونوں  ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پَچھلے دنوں منظور ہوا تھا۔ اپنے دہلی قیام کے دوران محمد علی شبّیر نے آئی ایم سی آر کے ذریعے منعقدہ مسقبل کی حکمت عملی کو لے کر بلائی گئی اہم میٹنگ میں شرکت کی ۔ اس میٹنگ میں سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید اور آئی۔ایم سی ۔آر کے چئیرمین محمد ادیب کے علاوہ سابق رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی ، تلنگانہ کانگریس کے سیکرٹری محمد جاوید، آئی ۔ایم۔ سی ۔آر کے نیشنل ایگزیکٹیو رکن جمیل احمد خان، آئی ۔ایم۔ سی ۔آر رکن شاھد صدیقی، صحافی انظرالباری اور سعود صدیقی سمیت دیگر کئی اہم افراد شریک رہے۔
میٹنگ کے بعد محمد  علی شبیر نے بتایا کہ ہم نے متفقہ طور پر متنازعہ قانون کے مذہبی، سیاسی پہلو سمیت قانونی نکات پر سنجیدگی سے غور کیا ۔ ہم نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس متنازعہ قانون کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کریں گے ۔ پٹیشن کا ڈرافٹ تیار ہونے کے بعد پیر کے روز عدالت عظمیٰ میں قانون کو چیلنج کریں گے۔  
انہوں نے کہا کہ گرچہ صدر جمہوریہ کی منظورِی اور گزٹ میں شائع ہونے کے بعد قانون نافذ العمل ہوگا تاہم ہم نے پارلیمنٹ سے منظورِ بل کے حتمی وزن کی بنیاد پر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے وقف ترمیمی قانون کو مسلمانوں کے مذہبی و آئینی حقوق پر براہ راست حملہ اور وقف اداروں کی خومختاری پر سنگین حملے قرار دیا ہے ۔ محمد علی شبیر نے مزید کہا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے اس بل کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا گیا کہ  کمیٹی میں شامل اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کے تمام سفارشات کو کمیٹی کے چیئر مین کی جانب سے یکسر مسترد کردیا گیا ۔ جس کی وجہ سے مشاورتی عمل غیر موثر ہوکر رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح سے جمہوریت کو نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ مشاورت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حزب اختلاف کے ارکان کی آواز کو دبا دیا جائے ۔ ان کی صدائے احتجاج کو بلڈوز کردیا جائے ۔ انھوں نے بل میں ان دفعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا جس میں وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کے شمولیت کی نمائندگی کی بات کہی گئی ہے اور ریاستی حکومتوں کو وقف املاک کے انتظام و انصرام اور ان کی درجہ بندی کے لئے حد سے زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں ۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو مساجد ، درگاہوں ، قبرستانوں، عیدگاہوں اور صدیوں قدیم وقف اداروں پر قبضے کے عمل کو سہل بنائیں گی ۔ خاص کر تلنگانہ میں وقف املاک کو تحویل میں لیا جا سکتا ہے جہاں ہزاروں ایکڑ اراضی بطور وقف رجسٹرڈ ہیں۔
انہیں نے کہا کہ مسلم قوم کی پاس دو ہی آپشن ہیں ایک تو یہ کہ بل کے خلاف عدالت میں قانونی لڑائی کریں یا پھر پر امن طریقے سے وقف بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سراپا احتجاج بن جائیں۔ انہوں نے یقین دھانی کراتے ہوئے کہا کہ کانگریس پارٹی اس وقف ترمیمی قانون کی تنسیخ کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ کیونکہ یہ قانون تمام مذاہب اور ملک کی لسانی اقلیتوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے ۔

Ads