اس سوال پر کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان جو نفرت پیدا کی گئی ہے اور ایک طرح سے زہریلا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں فرقہ پرست طاقتیں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ تو اس ضمن میں جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ پورے مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟کے جواب میں امیر جماعت اسلامی ہند نے کہاکہ ہمارے خیال میں سب سے اہم لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے کہ سب سے زیادہ تعلقات اورآپسی روابط قائم کیے جائیں۔ تو خود بخود ڈائیلاگ کی فضا قائم ہوگی۔ فرقہ پرست طاقتوں کی کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پولرائزیشن پیداہوں اور دوریاں بڑھیں۔ عام سماجی رابطے ہیں جن کے درمیان روابط اور ڈائیلاگ ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے وہ رابطہ کمزور سے کمزور تر ہوئے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کی یہ کوششیں ہیں روابط ختم ہو۔تو ہمارا اس کے مقابلے میں زیادہ کوشش ہونی چاہیے کہ رابطہ زیادہ سے زیادہ بڑھے اورعوامی حلقیمیں غیرمسلم زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے قریب آئیں۔دوسرا کام یہ ہے کہ ہر سطح پرمیں ہمیشہ یہ بات کہتا ہوں کہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ غیرمسلم اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جو سمجھ اور سوچ بنے وہ مسلمانوں کے رابطے کی وجہ سے بنے میڈیا کے ذریعے نہ بنے۔میڈیا یا لٹریچر جو بھی ہے وہ تھرڈ پارٹی نہ ہو براہ راست ہو۔ تھرڈ پارٹی میڈیا کی وجہ سے ہے وہ نفرت کی ایک اہم وجہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ ظاہر ہے کہ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے جو میڈیا میں غلط رخ دے کر پیش کرتے ہیں اسی لیے برادران وطن میں نفرت پیدا ہورہی ہے وہی دوری کی اصل وجہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جو بھی سوچ بنے وہ ہم سے رابطے کے نتیجے میں بنے۔ اس لیے ہر سطح پر فورم کھڑے کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام جماعت اسلامی بھی کررہی ہے اور مختلف مذاہب کے لیڈران بھی کررہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ مختلف مذاہب کے پبلک انٹلیکچول ہیں وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ میڈیا کی سطح پر فورم بنے اور سوشل ایکٹیوسٹ کی بنے، نوجوانوں کی بنے، خواتین کی بنے،جو کالونی یا گاؤں کی سطح پر کام کررہے ہیں ایک دوسرے سے بار بار مل جل کر بیٹھیں۔ اس لیے مختلف فورم کو اسی مقصد کے لیے لانچ کیے گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام صرف جماعت تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔مسلمانوں کے بھی سارے طبقات اور ہمارے برادران وطن کے افراد جو اس کام کو اہم سمجھتے ہیں انہیں بھی آگے بڑھ کر یہ کام کرنا چاہئے۔اس کام کو ایک موومنٹ اور ایک بڑی تحریک کی شکل دینی چاہئے۔
جماعت اسلامی یا دیگر مسلم تنظیمیں اور جمعیۃ علماہند وغیرہ جیسی کچھ تنظیمیں غیر مسلم اسکالروں کو اپنے پروگرام میں دعوت دیتی ہیں۔ اسی طرح غیرمسلم اسکالر کوبھی مسلم تنظیموں کے نمائندوں کو اپنے پروگراموں میں جگہ نہیں دینی چاہئے؟ کے سوال کے جواب میں سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وہ بھی اپنے پروگراموں میں جماعت کے کئی ایک ذمہ داروں کو اپنے پروگراموں میں بلاتے ہیں۔ بڑے بڑے غیر مسلموں کے پروگراموں جس میں دس دس ہزار لوگوں کی بھیڑہوتی ہے اس میں بھی جماعت اسلامی کے افراد کو بلایا جاتا ہے اور انہیں اسٹیج دیئے جارہے ہیں کہ وہ اپنی بات رکھیں۔ بہت سارے فورم ہیں جس کے ذریعہ ہم لوگ آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں اور مختلف پروگرام وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ کام مسلمانوں کی طرف سے بھی ہورہا ہے اور غیرمسلموں کی طرف سے بھی ہورہاہے۔ ہاں اس طرح کے پروگرام دونوں طرف سے بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔