دریں اثنا فرانسیسی خارجہ انٹیلی جنس کے سربراہ نکولس لرنر نے کہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ایرانی ایٹمی سرگرمیوں کی مضبوطی سب سے خطرناک خطرہ ہونے کی توقع ہے۔ انہوں نے اپنے برطانوی ہم منصب کے ساتھ پیرس میں دیے گئے بیانات میں مزید کہا کہ ہماری خدمات اس کا مقابلہ کرنے کے لیے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔
ایران برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کے لیے ایک اجلاس منعقد کر رہا ہے۔ اس سے قبل تینوں حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایک تجویز پیش کی تھی جس کی وجہ سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایران پر تنقید کرتے ہوئے ایک قرارداد جاری کی تھی۔
تہران نے گزشتہ ہفتے کی قرارداد کی تردید کی ہے لیکن ایرانی حکام نے بعد میں منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے قبل دیگر جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنی پہلی مدت میں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عمل کیا تھا۔
ایرانی سفارت کار ماجد تخت روانچی، جو وزیر خارجہ عباس عراقچی کے سیاسی معاون ہیں، مذاکرات میں ایران کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارناکے مطابق اس سے قبل وہ یورپی یونین کے ایلچی اینریک مورا سے ملاقات کریں گے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے 35 ممالک کے بورڈ آف گورنرز نے گزشتہ ہفتے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں ایران کے جوہری معاملات میں تعاون نہ کرنے پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔ یہ قرار داد جس کی ایران نے شدید مخالفت کی تھی برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ نے پیش کی تھی۔
ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے کو بڑھانے کے لیے بنائے گئے نئے جدید سینٹری فیوجز کی سروس شروع کرنے کی طرف جا رہا ہے۔ ایران کی جانب سے تین یورپی ممالک کے ساتھ ملاقات کے لیے اپنی تیاری کا اعلان ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے چند ہفتے قبل سامنے آیا ہے۔ یاد رہے اپنی پہلی میعاد کے دوران ٹرمپ نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ دستبرداری کے بعد ایران پر سخت پابندیاں عائد کرنے پر توجہ مرکوز کی تھی۔
تہران اور بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کا مقصد ایران پر عائد مغربی پابندیوں کو کم کرنا تھا جس کے بدلے اس کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی جائیں گی تاکہ اسے ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔ معاہدے سے امریکی دستبرداری کے جواب میں تہران نے معاہدے کی تعمیل کی اپنی سطح کو کم کیا اور اپنی یورینیم کی افزودگی کی شرح کو 60 فیصد تک بڑھا دیا۔ یہ شرح ایٹم بم تیار کرنے کے لیے درکار 90 فیصد کے زیادہ قریب ہے۔ تہران نے بارہا اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔