عمران مسعود نے پانچوں نوجوانوں کی موت کو پولیس کے ذریعہ کی گئی قتل قرار دیا ہے۔وہیں جمعیت علما ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی نے نے کہا کہ 1991 میں پارلیمنٹ نے عبادت گاہوں سے متعلق قانون بنایا تھا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں سبھی مذاہب کے عبادت گاہوں کی حالت ویسے ہی قائم رہے گی جیسی وہ 15اگست 1947 کے وقت تھی۔
اجودھیا معاملے میں رام جنم بھومی کے حق میں دئیے گئے تاریخی فیصلے کے دوران بھی انہوں نے اس معاملے کو استثنی قرار دیتے ہوئے دیگر سبھی معاملات میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمنی جمعیت علماء ہند کی عرضی سپریم کورٹ میں التواء کا شکار ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے آج کہا کہ سنبھل جیسے ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے لئے وہ سپریم کورٹ گئے ہیں۔ مدنی کا کہنا ہے کہ جب عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے حوالے سے صورتحال اک دم واضح ہے ایسی صورت میں ضلعی عدالتوں کو مساجد میں سروے وغیرہ کرنے جیسے آرڈر نہیں دینے چاہئے۔ ایسا کر کے یہ عدالت قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے سماج میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور دوری بڑھتی ہے۔
اس معاملے میں سہارنپور کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے آج دوہرایا کہ مسلم نوجوانون کا قتل کرنے والے پولیس والوں پر مقدمہ کیا جائے اور پولیس انتظامیہ نے اس طرح سے وہاں کے ایم پی کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کیا ہے اسے خارج کیا جائے۔
آر ایل ڈی ایم پی چندن چوہان نے آج کہا کہ سنبھل کا واقعہ بہت ہی بدقسمت مانتے ہیں۔ سماج میں ہم آہنگی اور امن کا ماحول بنارئے رکھنا بہت ہی ضروری ہے اس کے لئے بات چیت بے حد کارگر عمل ہے۔ مل بیٹھ کر متنازع معاملات کا حل نکل سکتا ہے۔ اسی کی کوشش کی جانی چاہئے۔