Masarrat
Masarrat Urdu

انڈیااسلامک کلچرسینٹر پرحملہ، مسلم مخالف شبیہ بنانے کی سازش

Thumb

نئی دہلی(پریس ریلیز)
بیرونِ ملک مسلمانوں کے جو حالات ہیں ہم میں سے اکثرو بیشتر ان سے واقف ہیں لیکن اندرونِ ملک کے حالات بھی کوٹھیک نہیں ہیں بلکہ روزافروزں خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے پس پردہ ایک طرف جہاں خود مسلمانوں کی اپنی کوتاہیاں اور بداعمالیاں شامل ہیں وہیں دوسری طرف ہندوستان کی حکومتیں ان کو چارۂ نرم سمجھ کرنگل جانا چاہتی ہیں۔ موجودہ حکومت ہو یا کوئی اورہر کوئی مسلم قوم کو مطلب براری کے لیے استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ مطلب نکل جانے کے بعد وہ اسے کانٹے کی طرح نکال پھینک دینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ایسے وقت اور حالات میں مسلمانوں کے فلاح وبہبودکے لیے کوئی کام کرنا لوہے کے چنا چبانے سے کم نہیں۔جولوگ اس میدان میں ہیں اور کام کر رہے ہیں انھیں اس کا بخوبی اندازہ ہے۔لیکن تکلیف تو تب ہوتی ہے جب اس طرح کے کام کرنے والوں کا تعاون اور حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی پرتنقیدیں کی جاتی ہیں اور ان کے خلاف نازیبا اور ناروا بیان بازیاں کی جاتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال انڈیا اسلامک کلچرسینٹر پر کچھ بد خواہ اور مسلم مخالف عناصر کی جانب سے حملہ کیا جا نا ہے۔
حالانکہ انڈیااسلامک کلچرسینٹر کی اپنے آغاز سے ہی ایک روشن اور تابناک تاریخ رہی ہے۔اس میں صرف مسلمانوں کے فلاح وبہبود کے لیے نہ صرف ہر طرح کی کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ انھیں موجودہ وقت کے شانہ بہ شانہ چلنا بھی سکھایا جاتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس میں مسلم طلبا وطالبات کو ان کی شخصیت سازی کے ساتھ ساتھ انھیں مقابلہ جاتی ومسابقہ جاتی امتحانات کے لیے تیار بھی کیا جاتا ہے۔ اس تعلق سے اس میں سینٹرکی جانب سے مسلسل ایسے پروگرام،ورک شاپ اور کورس مفت مہیاکرائے جاتے ہیں جن سے مسلم بچوں میں وقت سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو اورآگے چل کر وہ اپنے ملک و قوم کانام روشن کرسکیں۔ ان فلاحی و تربیتی کاموں کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے حوالے سے بھی انڈیااسلامک کلچر سینٹرکاکردار ہمیشہ سے حوصلہ افزا رہاہے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج واشاعت کے لیے مشاعرے اور ادبی پروگرام آئے دن اس کے خوبصورت اور دیدہ زیب آیڈیٹوریم میں منعقد ہوتے رہے ہیں۔ یہ اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے امتیازات ہیں جن کی بدولت صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اسے ایک منفردشناخت حاصل ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے ہم بجاطورپر کہہ سکتے ہیں کہ انڈیااسلامک کلچرسینٹر محض ایک عمارت یا ادارہ نہیں بلکہ دہلی میں مسلمانوں کی شناخت اورافتخار کا ذریعہ بھی ہے۔
ابھی حال ہی میں کچھ نام نہاد مسلم لیڈران کے ذریعہ انڈیااسلامک کلچر سینٹر کے ذمہ دار اور صدر سراج الدین قریشی پر حملہ اور ان کے خلاف سازشیں نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ ناقابل برداشت بھی ہیں۔ اسے آنے والے عام انتخابات کے لیے چھوڑے جانے والے شوشوں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے۔ وہ لیڈران یہ سمجھتے ہیں کہ سراج الدین قریشی کمزور ہیں اور ہم ان کوبدنام کرکے اس ادارے کی حیثیت کو مسخ کردیں گے۔میرے خیال سییہ ان کی خام خیالی ہوگی۔اس سازش کے پیچھے ان کامقصد ادارے کوآگے لے جانا نہیں بلکہ اس کی بدنامی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس ادارے کی شناخت مضبوط بنیادوں پرقائم ہے اور جس کا وقار دوردراز تک پھیلاہواہے اسے کسی طرح بھی کمزور کردیائے۔ مگر وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ انھیں اپنی ان ناپاک سازشوں میں کبھی کامیابی نہیں ملے گی۔ کیوں کہ سراج احمدقریشی اس ادارے میں تنِ تنہا کام نہیں کررہے ہیں بلکہ ملک و بیرون ملک کے کروڑوں مسلمان بھی ان کے ساتھ ہیں۔انھوں نے اس ادارے کو نہ صرف بڑی محنت سے بنایاہے بلکہ اس کے استحکام اور مضبوطی میں ان کا بلندحوصلہ اوران تھک کوششیں بھی شامل حال ہیں۔ اس ادارے کو آگے لے جانے کے لیے وہ روز اول سے ہیتگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سراج الدین قریشی کو90فیصد ممبران کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے خلاف اگر کسی نے ایک جملہ بھی کہا تواس کے وقارو شان کے تحفظ کے لیے وہ ہرطرح کی قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں اور ضرورت پڑی تو اس کے لیے وہ سڑکوں پر بھی اُترنے سے گریزنہیں کریں گے تاکہ ان کے خلاف سازش کرنے والوں کودندان شکن جواب دیا جاسکے۔ 
آج کچھ نام نہاداورموقع پرست مسلمان اس باوقار ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں۔ اس کام میں نہ صرف تخریب پسندعناصر بلکہ کئی معروف اور سیاسی لیڈر بھی شامل ہیں۔ اس کے پیچھے ان کامقصدمسلم دشمنان سے تعریفیں بٹورنا یاپھر مسلم مخالف شبیہ بناکران سے فائدہ اٹھانا کہا جاسکتاہے۔حالانکہ کسی پرانگلی اٹھانے سے پہلے انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے تھا کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو انہوں نے مسلمانوں کی فلاح وبہود کے لیے کون کون سے کارنامے انجام دیے جو مسلمانوں کے مفاد میں ہو۔ اگرسچائی سے اس کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گا کہ انہوں نے صرف مسلم فیس ہونے کا فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے ذریعہ عہدہ تو حاصل کرلیا مگر جس وجہ سے ان کویہ مقام بالاملااسی کو یہ بھول بیٹھے۔انہوں نے پوری مدت گزار دی مگر کچھ بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے مسلمانوں کا بھلا ہوتا اور انہیں آگے بڑھنے میں مدد ملتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کو وہ پاور اور طاقت نہیں دی گئی ۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ انھوں نے کام نہ کرکے اقتداراعلیٰ کویہ میسیج اورپیغام دیا کہ یہ قوم گدھوں کی ہے اوران کو بس ہانکتے جاؤ۔ وقت آنے پران کا استعمال کرو مگر جب ان کے لیے کچھ کرنے کا وقت آئے تو وعدے اوربہانے کرکے کام نکال لو۔کیوں کہ ان کے پاس کوئی اور چارہ بھی تونہیں ہے اوریہ کہیں اور جا بھی تونہیں سکتی۔ اگر یہ قوم کہیں گئی بھی تو پھرلوٹ کر یہیں واپس آئے گی اس لیے ان کوکچھ دینافضول ہے۔ 
دیکھاجائے تو ایسے لیڈران سے ہم وطن ہندوبھائی زیادہ اچھے ہیں۔ کم از کم وہ اپنے ووٹروں سے کیے گئے وعدے توپوراکرتے ہیں۔اگر انہیں عہدہ ملتاہے تواپنے آقاؤں کی چاپلوسی کے بجائے کام پریقین رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے کام کرنے سے بھی گریزنہیں کرتے ہیں مگر مسلمان لیڈران کاتو یہ حال ہے کہ وہ اپنی پورت مدت اسی خوف اورچاپلوسی میں گزار دیتے ہیں کہ کہیں اس کے آقا اس پرمسلم نوازی کاالزام کران سے یہ عہدہ نہ چھن لے اورانھیں میسرچیزوں سے بھی ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ ایسی صورت میں ان کے مسلمان اور مسلمانوں کے قائدو رہنما ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے؟
انھیں حالات کے پیش نظرمسلمان بھائیوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس دور افتاد میں وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنا قدم اٹھائیں۔ کسی کے بہکاوے میں نہ آکر کے کام کرنے والے کو دیکھیں اوران کی حوصلہ افزائی کریں۔اگرکوئی میدان عمل میں ہے تو ان کے کام میں تعاون دینے کی کوشش کریں۔ ان کے ذریعہ کیے گئے کاموں کاتجزیہ کریں پھرفیصلہ کریں کہ وہ کہاں تک صحیح ہیں اور کہاں تک غلط۔ بغیر سمجھے کسی کی بات پردھیان دینامیرے خیال سے ہماری نادانی ہوگی۔ یہ لیڈران ہمیں بے وقوف بناکر اپنی مطلب براری کرتے ہیں اور یہی ان کی زندگی کاشیوہ ہے۔ آگے بھی وہ یہی کریں گے۔ ان سے خیرکی توقع نہ کبھی تھی اورآگے بھی کی سکتی ہے۔انھوں نے پوری زندگی قوم کے نام پرلوگوں کو بے وقوف بنایاہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے رہے کہ یہ ہمارے لیڈرہیں، ترقی کے لیے کام کریں گے اور دوسری طرف اپنے آقا کو بھی یہ باور کراتے رہے کہ ہم ان کوسنبھال لیں گے۔ ان کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔گویادونوں طرف انہوں نے لوگوں کوبے وقوف بنانے کے علاوہ کبھی کچھ کام نہیں کیا۔ پھر ایسے شخص کی باتوں پربھروسہ کیسے کیاجاسکتاہے؟ بلکہ ان لیڈران کاغلط بیان بازیوں ان کے بہکاوے میںآنے کے بجائے ہوسکے توآپ خود بھی کچھ کرگزرنے کی ٹھان لیں۔اس لیے کہ اچھے مقصد کے لیے کیا گیا کام آپ کی آخرت سنوارنے کا سبب بنے گا اور اچھے کام میں دخل دینے اور رکاوٹ بننے کے سبب آپ کی آخرت بھی خراب ہو سکتی ہے ۔ 
انڈیااسلامک کلچرسینٹر کے صدرجناب سراج الدین قریشی صاحب وہ شخصیت ہیں جن کی ان تھک کوششوں کی بدولت پہلے یہ ادارہ اپنی تکمیل کو پہنچااور اب یہ ایک نئی عمارت کی شکل میں اپنی مثال آپ ہوگا۔ اس ادارے میں سراج الدین قریشی صاحب کسی بھی معاملے میں تن تنہا نہیں ہیں بلکہ کروڑوں افرادان کے ساتھ ہیں۔ خدا نے ان کی شخصیت میں وہ تمام خصوصیات یکجاکردی ہیں جو اس دور افتاد میں ایک رہنما کے لیے ضرور ہیں:
جو جلاتے ہیں ہواؤں میں چراغ
وہ ہیں طوفان کی زد پر قائم

ڈاکٹرحنیف ترین

عالمی اردو مجلس،دہلی
صدر،8920859337, 9971730422
danishhaniftarin@gmail.com

Ads