نئی دہلی، 10 فروری (مسرت نیوز) جب سے اردو زبان وجود میں آئی ہے اس نے اپنا سفر ہمیشہ جاری رکھا ہے اور اس نے ہمیشہ اپنی بستیاں آباد کی ہیں، خلیج میں اردو کی نئی بستی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ بات معروف بین الاقوامی علمی ادبی تنظیم ”بزمِ صدف انٹرنیشنل کویت شاخ کے زیر اہتمام بین الاقوامی آن لائن مشاعرے میں دانشوروں نے کہی۔
مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ خلیج میں اردو کا زبردست فروغ ہورہا ہے اور آٗئے دن خلیج میں ہونے والے ادبی پروگرام اس بات کا ثبوت ہیں اور بزم صدف کے روح رواں شہاب الدین احمد کو کامیاب کانفرنس کی مبارک باد دیتے ہوئے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کی۔ساتھ ہی مسٹر شہاب الدین کی علم و ادب کے لیے انجام دی جانے والی خدمات اور ان کی انتظامی و قائدانہ صلاحیتوں کی انہوں نے تعریف کی۔
مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے مشہور شاعر اور بزم صدف انٹرنیشنل کویت شاخ کے صدر مسعود حساس نے کہا کہ خلیج کے مختلف ممالک میں مقیم شعرا کی تمام اسالیب پر مبنی توانا آوازوں کو ایک صفحہ پر لا کر دنیا کے سامنے ایک معتبر حوالہ کے طور پر پیش کیا جانا یہ خلیج میں اردو بستان کا پودا سرسبز و شاداب ہونے کی علامت ہے اور خلیج میں کی جانے والی شاعری ہند و پاک کی شاعری سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت خلیج اردو کی ایک بڑی بستی کی شکل میں وجود میں آگیا ہے۔ خلیج میں قیام پذیر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے جس طرح اردو کی آبیاری میں حصہ لیا ہے اس کا اعتراف عالمی طور پر کیا جانا چاہئے اور اس پر اردو کے دیگر دبستانوں کو کام کرنا چاہئے تھا لیکن یہ کام بھی خلیج والوں کے ہی حصہ میں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سیمنار اور عالمی مشاعرے میں پہلی بار خلیج میں اردو زبان و ادب کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے اور تمام مقالہ نگاروں نے خلیج میں اردو زبان و ادب کے بارے میں کھل کر بات کی ہے اور مقالہ کی صورت میں وہاں کی ادبی خدمات کو یکجا کیا ہے۔ خلیج میں کیا جانے والا پہلا باضابطہ کام ہے اور اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ذیل میں صحرا میں اردو کی تشجیر میں مشغول خلیجی ممالک کے شعرا کمالِ فن کے کس مرتبہ پر فائز ہیں اس رپورٹ میں ان کے چنیدہ اشعار قارئین اردو ادب کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔
ظہورالاسلام جاوید
ہمیں جو رزق دیا اس میں وسعتیں لکھ دیں
مگر حصول میں صحرا کی شدتیں لکھ دیں
صفدر امام قادری
تھی جس کے زیر نگیں دوجہاں کی دارائی
خدا گواہ وہی بندہٍ خدا میں تھا
ڈاکٹر ثروت زہرا
اب تو سنوارنے کے لیے ہجر بھی نہیں
سارا وبال لے کے غزل کر دیا گیا
ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی
گھروندہ برف کا یہ مسکنِ آدم نہیں لگتا
جو تم ہو دور تو اچھا کوئی موسم نہیں لگتا
شاہ جہاں جعفری حجاب
چاند بھی میرے من سا پاگل ساری رات بھٹکتا ہے
اس کا بھی شائد کوئی اس میلے میں کھویا ہوگا
عارف انوار الحق
آج تو ہم ترے ہر ظلم پر چپ ہیں لیکن!
باندھ لیں ہم بھی کفن سر پہ تو پھرکیا ہوگا
اطہر عباسی
سائے کو دیکھ کر پسِ دیوار ہو گئے
خوشبو نے آ لیا تو گرفتار ہو گئے
احمد عادل
شعر لکھتے ہوئے کیا کیا نہیں لکھا میں نے
بس تلاطم کو کنارا نہیں لکھا میں نے
فیاض وردگ
ہے روشنی کی ضرورت پر احتیاط رہے
کہیں نہ آگ لگاو بہت اندھیرا ہے
ڈاکٹر عامر قدوائی
اگر تم میں ذرا سی بھی وفا داری نہیں ہے
ہمیں بھی عشق جیسی کوئی بیماری نہیں ہے
گوہر عباس نقوی
تجھ کو ترا ضمیر جگائے گا ایک دن
جو سچ ہے وہ زبان پہ آئیگا ایک دن
احمد اشفاق
جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی
خواب تودے دیے اس نے ہمیں مہلت نہیں دی
احیاء الاسلام
ہاتھوں کی لکیروں کا لکھا کاٹ رہے ہیں
ہم اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں
طاہر عظیم
ایک صف میں شجر لگے ہوئے ہیں
ہم بھی اک شاخ پر لگے ہوئے ہیں
سید سروش آصف
کہیں میں کم ہوں ابھی تک کہیں سوا ہوں میں
میں بن چکا ہوں یااب تک نہیں بنا ہوں میں
صابر عمر
وہ توافلاک پہ بولیں گے کئی گھنٹوں تک
وہ زمینوں کے مسائل پہ نہیں بولیں گے
فطین اشرف صدیقی
دکھاو جرات گفتار آو سچ بولیں
بہ روء دشمن و اغیار آو سچ بولیں
شاداب الفت
یہ جو چہروں پہ ہیں آثار پریشانی کے
یہ نتائج ہیں سبھی آپ کی من مانی کے
ریاض شاہد
لگائی کس نے صدا پر صدا کوئی تو تھا
جو تو نہیں تو نہاں دوسرا کوئی تو تھا
نعیم جاوید
میں اپنے خوابوں کے آفتابوں سے خود ملوں گاسحر سے پہلے
مری نگاہیں بھی ڈھونڈ لیں گی نشان منزل خضر سے پہلے
بدر سیماب
تو تو بازارِ عداوت میں بھی کھوٹا نکلا
مرے دشمن تومیری سوچ سے چھوٹا نکلا
عائشہ شیخ عاشی
یونہی شب بدلتی نہیں کروٹیں
اندھیرے میں کوئی دیا چاہتا ہے
وصی الحق
حال ہوتا ہے شجر کا جو ثمر سے پہلے
تھا وہی حال مرا علم و ہنر سے پہلے
شہباز شمسی
سرآشفتہ پر پرکھوں کی پگڑی باندھ رکھی ہے
زمیں پیروں تلے اپنے سرکتی باندھ رکھی ہے
نسیم زاہد
تجھ کو ہے ناقدین سے نفرت
تیرے کمرے میں آئینہ کیوں ہے
سمیعہ ناز ملک
ہم کو بھی اپنی صداقت کا ملے کوئی ثبوت
نار نمرود سے ہم بھی تو گزارے جائیں
ایوب خان نیزہ
ایک ہم تھے کہ سمجھتے تھے سیانے خود کو
وائے قسمت میرے سالے بھی سیانے نکلے!
وقاراحمد
میں نے کل رات کہیں چاند اترتے دیکھا
ظلمت شب کو وہیں ناک رگڑتے دیکھا
ڈوبتی ناو کو دو بارہ ابھرتے دیکھا
وہ جو بے رحم تھی اس موج کومرتے دیکھا
اور پھر میں نے شہنشاہ کو ڈرتے دیکھا
مہتاب قدر
اس باغ کی محبت چمٹی ہوئی ہے جاں سے
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
مسعود حساس
ان کی تشبیہ چاند صورت سے
فہم انساں خراب ہے بے شک
باہمی گفتگو تشہیر پہ رکھ دیتا ہے
میرے احساس کو تعزیر پہ رکھ دیتا ہے
محفل مشاعرہ میں مسندِ صدارت پر عالمی شہرت یافتہ شاعر و دانش ور ڈاکٹر ظہور السلام جاوید ابوظہبی، مہمان خصوصی ممتاز شاعر و ادیب صفدر امام قادری ہندستان، مہمانانِ اعزاز محترمہ ڈاکٹر ثروت زہرا دبئی اور جناب ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی قطر تھے۔
مسعود حساس کویت نے انتہائی مشاق، منفرد اور خوب صورت لب و لہجہ سے نظامت کے فرائض انجام دے کر تمام لوگوں کو داد تحسین پیش کرنے پر مجبور کردیا۔ خلیج کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نے مشاعرے کی منظوم نظامت کی ہو۔ مسعود حساس نے منظوم نظامت کرتے ہوئے اس مشاعرے کو تاریخی اور یادگار بنادیا۔