Masarrat
Masarrat Urdu

’بزمِ صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن‘ کا قیام دیرینہ خواب کی تکمیل۔ شاہدہ حسن

Thumb


نئی دہلی/دوحہ،21اکتوبر (مسرت نیوز)  عالمی خواتین انجمن’بزمِ صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن‘ کا قیام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی صدر 
محترمہ شاہدہ حسن نے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے دیرینہ اس خواب کی تکمیل گذشتہ دنوں ہوئی ہے جب اس کا باضابطہ قیام کا اعلان کیا گیا۔ یہ بات انہوں نے 
خواتین انجمن کی تاسیسی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے اپنے صدارتی خطاب  میں اختصار کے ساتھ بزمِ خواتین کو زیادہ موثر اور سرگرم بنانے کے لیے بعض کارآمد مشورے پیش کیے۔
تنظیمِ خواتین کی جنرل سکریٹری ڈاکٹر افشاں بانو نے آغاز میں اس تنظیم کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی عالمی حیثیت کے پیش نظر کسی بین الاقوامی خواتین ادبی انجمن کی واقعتا ضرورت تھی۔ دنیا میں ادبی رویوں کی تبدیلی اور عالمی سطح پر زبان و ادب کے نئے مسائل کے پیش نظر یہ لازم ہے کہ ایسے ادارے وجود میں آئیں۔انھوں نے دنیا بھر کی خواتین فن کاروں کے اُن مسائل کا ذکر کیا جن کے سبب ان کی تحریروں کی توسیع و اشاعت میں بہت طرح کی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ 
بزمِ صدف کے چیرمین شہاب الدین احمد نے ’بزمِ صدف:ایک مشن‘موضوع کے پیش نظر خواتین کی اس انجمن کے اہداف طے کرنے کے لیے مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ کتابوں کی طباعت و اشاعت اور اپنی تخلیقات کی عالمی تشہیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزمِ صدف کی اشاعتی سرگرمیوں سے آپ تمام لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ 
بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے تنظیمِ خواتین کی ضرورت کے موضوع پر اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے اردو کی ادبی تاریخ میں خواتین کی گوناگو ں خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس تنظیم کے مستقبل شناس ہونے اور مختلف انداز کے کاموں کو انجام دینے کے لیے آگے آنے کی ذمہ داری اٹھانے کی گزارش کی۔ 
پروگرام کا افتتاح بزمِ صدف کے سرپرستِ اعلی محمد صبیح بخاری نے کیااور مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے پروفیسر ارتضیٰ کریم(دہلی)، باصر سلطان کاظمی(برطانیہ) اور ضامن جعفری (کینیڈا) نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر افشاں بانو نے کامیابی کے ساتھ کی۔ اس پندرہ ممالک کی خواتین جن میں شاعر، نقاد،افسانہ نگار، محقق اور ادب کی مختلف اصناف میں خدمات انجام دینے والی اہلِ قلم اس میں شامل تھیں۔

 دوبئی میں مقیم بزمِ خواتین کی پروگرام کوآرڈینیٹر محترمہ عائشہ شیخ آشی کی نظامت میں خواتین کا یہ عالمی مشاعرہ شروع ہوا۔ 
دل ٹوٹا ایسے، کرچیاں ہاتھوں میں رہ گئیں 
گھر اس کے بعد مجھ سے سنبھالا نہیں گیا
قطر میں مقیم بزمِ صدف کی خواتین انجمن کی سرپرست محترمہ رفعت جہاں نے اس کے بعد اپنے اشعار سنائے۔ انھوں نے دو غزلیں پیش کیں۔ ان کی شاعری میں عصرِ حاضر میں عورت کی زندگی کے مسائل زیرِ بحث تھے۔ انھوں نے کہا:
دل کوئی آیا لے کے رفعتِ جاں 
کوئی بیٹھا رہا غبار لیے
بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ یافتہ براے ۹۱۰۲ء ڈاکٹر ثروت زہرا نے مشاعرے میں ہم عصر شاعری کے انفرادی لہجے اور تانیثی ذہن و تصوّر کے اظہار سے سامعین کی خصوصی توجہ حاصل کی۔ ان کے ان اشعار کو داد سے نوازاگیا:
ثواب کی دعاؤں نے گناہ کردیا مجھے
بڑی ادا سے وقت نے تباہ کردیا مجھے
منافقت کے شہر میں صدائے حرف کو مرے
قلم کی روشنائی نے سیاہ کردیا مجھے
تہران یونی ورسٹی کے شعبہئ اردو کی استاد ڈاکٹر وفا یزدان منش جو تنقید و تحقیق اور شاعری میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہیں،انھوں نے مشاعرے میں نظم و غزل دونوں صنفوں سے سامعین کو نئے ذائقہئ شعر سے آشنا کرایا۔ 
ایک ہی لمحے میں مجھ کو سوچ نے بھٹکا دیا
یعنی میری زندگی کا ایک ہی لمحہ غلط تھا
سعودی عرب کے جدہ میں مقیم محترمہ امرینہ قیصر نے ترنم سے اپنی غزل کے اشعار پیش کیے۔ ان کی شاعری کا خاص تانیثی رنگ سننے والوں کی داد کا سبب بنا۔ 
تمھاری باتوں کو یاد رکھوں یا دل کی باتیں سنا کروں میں 
یہ فیصلے بھی بہت کٹھن ہیں تمھی بتاؤ کہ کیا کروں میں 
تمھاری عادت ہے کڑھتے رہنا تو میری عادت ہے مسکرانا
تمھیں خوشی تو کبھی نہ ہوگی،جفا کروں یا وفا کروں میں 
محترمہ فریدہ نثار انصاری جو قطر میں مقیم ہیں،انھوں نے غزل اور نظم دونوں صنفوں کی پیش کش سے ناظرین کی توجہ کھینچی۔ 
سجا کر آنکھ میں آنسو، گلِ ایثار لائی ہوں 
میں اب برقِ تپاں سے مانگ کر رفتار لائی ہوں 
ان کی نظم’مائیں ایسی ہوتی ہیں‘ پر بھی عوام نے انھیں داد سے نوازا۔
پاکستان سے محترمہ عنبرین صلاح الدین نے نظم و غزل سے اپنی مختلف فکر اور شعری امتیاز کو واضح کیا۔ تانیثی تصورِ حیات کی وجہ سے ان کی شاعری سنجیدہ غور و فکر کا حصہ بنی۔ ان کی غزل کے یہ اشعار قابلِ ذکر تھے:
اس کا موڈ بھی ایک پہاڑی رستہ ہے
اگلے موڑ پہ جانے کیسا منظر ہو
یعنی میں ہوں نصف تمھارے منظر کی
یعنی تم بھی ایک ادھورا منظر ہو
محترمہ عنبرین صلاح الدین نے ایک نہایت طنزیہ اور پُرسوز نظم ’بے حیاعورتیں‘ پیش کی جس میں بنتِ حوا کے سلسلے سے روا رکھے گئے تاریخی جبر کو واضح کرنے میں شاعرہ کو کامیابی ملی۔ 
اب سمیعہ ناز ملک نے مشاعرے کی کامیاب نظامت کر رہیں شاعرہ دوبئی میں مقیم محترمہ عائشہ شیخ آشی کو زحمتِ سخن دی۔ ان کی غزل کے ذیل کے اشعار پر انھیں خوب خوب داد ملی۔ 
خدا نے میری بینائی کو کچھ ایسا ہنر بخشا
میں آنکھیں بند کر کے بھی نظارہ دیکھ سکتی ہوں 
درختوں اور پرندوں سے محبت ہو گئی ایسی
کہ اب میں بھی ہواؤں کا اشارہ دیکھ سکتی ہوں 
شارجہ میں مقیم محترمہ سمیعہ ناز ملک نے اپنی غزل میں محبت کے جذبے کی پیش کش کے ساتھ عصرِ حاضر کے نئے پیمانے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ 
ہر وفادارِ محبت کو یہ اعزاز ملے
جتنے عاشق ہیں،بیاباں میں اتارے جائیں 
ہم کو بھی اپنی صداقت کا ملے کوئی ثبوت
نارِ نمرود سے ہم بھی تو گزارے جائیں 
اب مشاعرے میں بزمِ خواتین کی سکریٹری ڈاکٹر افشاں بانو محوِ کلام تھیں۔ افشاں بانو نقاد اور محقق ہیں۔ ان کے ان اشعار پہ انھیں داد ملی۔ 
ایسا کوئی کہاں جسے تم سا بتائیں ہم
دل میں بسا کے جس کو غزل گنگنائیں ہم
بزمِ صدف نئی نسل انعام یافتہ شاعرہ و ادیبہ ڈاکٹر عشرت معین سیما نے مشاعرے میں ایک غزل سنائی جس کے ذیل کے اشعار خاص طور پر پسند کیے گئے۔ 
فصیل رنجش کی آسماں تک کھڑی ہوئی ہے
سو اس کے سینے میں خشتِ گریہ گڑی ہوئی ہے
ابھی تو روشن کیے گئے ہیں چراغ سارے
انھیں بجھانے پہ بادِ برہم اَڑی ہوئی ہے
عشرت معین سیما نے موجودہ عہد میں عورت کے جذبات، کیفیات اور جہدِ مسلسل کو اپنی غزل میں پیش کرنے میں کامیابی پائی۔برطانیہ میں مقیم محترمہ تسنیم حسن نے غزل کے منتخب اشعار سنائے۔ نیا لہجہ اور انفرادی انداز کے سبب انھیں داد ملتی رہی۔ 
جو نام لکھ کے درختوں پہ بھول جاتے ہیں 
وہاں پہ شاخوں کے سائے اداس ہوتے ہیں 
میں دیکھتی رہی ان انگلیوں کی کاریگری
جو ہاتھ سنگ میں چہرہ شناس ہوتے ہیں 
مرا اپنا اثاثہ کچھ نہیں ہے
مرا تو نام بھی رکھا ہوا ہے
اجالے سب سمیٹے جاچکے ہیں 
مرے رستے میں اک ٹوٹا دیا ہے
کویت میں مقیم بزمِ صدف کی خواتین انجمن کی سرپرست محترمہ شاہ جہاں جعفری حجاب نے مہجری صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہوئی ایک نہایت پُراثر نظم بہ عنوان ’سنو‘ پیش کی جس میں ایک بیوی دور کسی ملک میں رہنے والے اپنے شوہر سے اپنی زندگی کی پریشانیوں کا بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں بارہ ماسے کی بِرہن کا درد اور موجودہ عہد کی زندگی کی گھٹن ایک ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔ زندگی کی حقیقی کیفیت بیان کرتی ہوئی یہ نظم اپنے آخری دو بند پہ انجام کو پہنچی۔
گئے پردیس تھے تم دھن کمانے
حویلی اپنی کُٹیا کو بنانے
مگر اب خود سنہری قید میں ہو
کہ تم نے کھو دیے اپنے ٹھکانے

تم اب سونے کی لنکا کو جلا دو
مری الفت کا بس اتنا صلہ دو
مری میت کو چھو پائے نہ کوئی
مجھے تم قبر میں آکر سُلا دو
بزمِ خواتین کی نائب صدر محترمہ حمیرا رحمان نے اپنی شاعری سے ایک مخصوص سماں باندھا۔ جدید اردو شاعری اور تانیثی جذبوں کی پیش کش کے سبب عالمی سطح پر ان کی ایک پہچان ہے۔ ان کے درج ذیل اشعار کو پسندیدگی کی نگاہ سے ملاحظہ کیا گیا:
عجیب الجھی ہوئی داستاں کا حصہ ہیں 
وہاں کے ہیں ہی نہیں ہم، جہاں کا حصہ ہیں 
گزرتے رہتے ہیں ہر روز رائیگانی سے
ہم ایسے شعبدہ گاہِ زیاں کا حصہ ہیں 
ادھار مانگی ہے کچھ سال زندگی ہم نے
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں کا حصہ ہیں 
مشاعرے کی صدارت بزمِ خواتین کی صدر اور اردو نسائی شاعری کی ایک عالمی آواز محترمہ شاہدہ حسن نے کی۔ انھوں نے اوّلا فارسی کی مشہور شاعرہ پروین اعتصامی کی فارسی نظم کا ترجمہ پیش کیاجس میں عورت کی زندگی کے کئی رنگ ابھر کر سامنے آرہے تھے۔ محترمہ شاہدہ حسن نے ایک غزل کے منتخب اشعار بھی سنائے جس میں ان کی شاعری کا انفرادی رنگ بدرجہئ اتم موجود تھا۔ 
نئی زمیں ہے قدم سے لپٹی فلک بھی سر پر ہے اجنبی سا
اگر میں کھو جاؤں راستوں کا بتانے والا کوئی نہیں ہے
مرے قبیلے کے سربراہوں کی غفلتیں بھی کمال کی ہیں 
کہ گہری نیندوں میں کب سے گم ہیں، جگانے والا کوئی نہیں ہے
میں ٹوٹتے اور بکھرتے رشتوں کو جوڑنے میں مگن ہوں لیکن
ہے یہ بھی سچ کہ مجھی کو مجھ سے ملانے والا کوئی نہیں ہے
مشاعرے کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر صفدر امام قادری نے یہ دل دوز اطلاع دی کہ چند گھنٹوں پہلے اردو ادب و تنقید کی معتبر آواز پروفیسر مظفر حنفی رخصت ہوگئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس ۹۱۰۲ء کے لیے بزمِ صدف کے بین الاقوامی ایوارڈ کا انھیں مستحق قرار دیا گیا تھا مگر سیاسی صورتِ حال اور بعد میں وبائی ماحول کی وجہ سے انھیں ایک شایانِ شان جلسہ کرکے یہ انعام نہیں دیا جاسکتا۔ انھوں نے مظفرحنفی کی اردو ادب و تنقید میں خاص پہچان کے سلسلے سے اختصار سے بتایا اور ان کے لواحقین سے صبر کی تلقین کی۔بزمِ صدف کے سرپرستِ اعلا جناب محمد صبیح بخاری اور بزمِ صدف کے چیرمین محمد شہاب الدین احمد نے خدا سے ان کے درجات بلند کرنے کی دعا کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ ماحول درست ہونے کے بعد مظفر حنفی کی حیات و خدمات پر ایک بڑے سے می نار کا انعقاد کیا جائے گا اور ان کے لواحقین کو ایوارڈ کی رقم پیش کی جائے گی۔ مشاعرے کی صدر محترمہ شاہدہ حسن نے مظفر حنفی کو یاد کرتے ہوئے اپنی غزل کا ایک شعر انھیں نذر کیا:
دیے لگاتار بجھ رہے ہیں تو بڑھ گیا ہے بہت اندھیرا
چراغ سے اب چراغ شاید جلانے والا کوئی نہیں ہے
صدرِ محترم کی شاعری کے بعد کلکتہ سے محترمہ شبانہ آفرین جاوید، موریشس سے ڈاکٹر نازیہ بیگم جافو، بنگلہ دیش سے محترمہ حفصہ اختر اور لکھنؤ سے محترمہ غزال ضیغم نے اختصار کے ساتھ اپنے خیالات اور ادارے کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ محترمہ شاہدہ حسن نے اپنے صدارتی کلام میں اختصار کے ساتھ بزمِ خواتین کو زیادہ موثر اور سرگرم بنانے کے لیے بعض کارآمد مشورے پیش کیے۔ اس طرح بزمِ صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن کا تاسیسی پروگرام نئی ادبی روایتوں اور جوش و خروش کے ساتھ انجام کو پہنچا جہاں تمام ادیباؤں نے اس عالمی ادبی انجمن سے موثر کارکردگی کی توقع کی اور سب نے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کے جذبے کا اظہار کیا۔

Ads